سپریم کورٹ کا فیصلہ، انصاف کی راہیں قریب
ایک عام کہانی
ذرا تصور کیجیے، دبئی میں مزدوری کرنے والا عمران روز صبح سورج نکلنے سے پہلے اٹھتا ہے، پورا دن پسینہ بہا کر محنت کرتا ہے اور شام کو اپنے کمرے میں بیٹھ کر وطن میں موجود گھر والوں سے بات کرتا ہے۔ لیکن جب گاؤں میں زمین کے کاغذات پر جھگڑا کھڑا ہو جائے یا وراثت کے کیس میں اس کی موجودگی ضروری ہو، تو وہ بے بس ہو جاتا ہے۔ نہ آسانی سے چھٹی ملتی ہے، نہ ہی بار بار پاکستان آنے کے اخراجات برداشت ہوتے ہیں۔ ایسے میں ہر تاریخ ایک نئی پریشانی بن جاتی ہے۔ عمران جیسے لاکھوں پاکستانی برسوں سے اسی مشکل سے دوچار ہیں۔
عدالت کی نئی روشنی
سپریم کورٹ نے اب ان لوگوں کے لیے امید کی کرن روشن کی ہے۔ عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ بیرون ملک پاکستانی جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنے مقدمات میں شامل ہو سکیں گے۔ مطلب یہ کہ انہیں صرف عدالت میں پیش ہونے کے لیے ہزاروں میل کا سفر نہیں کرنا پڑے گا۔ ویڈیو لنک کے ذریعے گواہی دینا، آن لائن دستاویزات جمع کروانا اور براہِ راست جج سے بات کرنا اب ممکن ہوگا۔
وقت اور پیسوں کی بچت
یہ قدم ان لاکھوں خاندانوں کے لیے راحت کا پیغام ہے جن کے سر پر مقدمات کا بوجھ ہے۔ پہلے ایک تاریخ کے لیے ٹکٹ، چھٹی اور رہائش کے اخراجات اٹھانے پڑتے تھے، لیکن اب یہ سب بچ جائے گا۔ سب سے بڑھ کر، مقدمات برسوں لٹکنے کے بجائے جلد نمٹ سکیں گے، اور پردیس میں محنت کرنے والے پاکستانی سکون سے اپنے کام پر توجہ دے سکیں گے۔
ریاست اور شہریوں کا تعلق مضبوط
یہ فیصلہ اس بات کی علامت بھی ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کو چاہے وہ جہاں بھی ہوں، نظر انداز نہیں کرتی۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، اور ان کی مشکلات کو کم کرنا نہ صرف انصاف کا تقاضا ہے بلکہ ان کے دل جیتنے کا ذریعہ بھی۔ عدالتوں پر غیر ضروری دباؤ کم ہوگا، مقدمات کی رفتار بہتر ہوگی اور شفافیت بھی بڑھے گی کیونکہ سب کچھ ریکارڈ پر ہوگا۔
چیلنجز اور حل
یقیناً اس نظام کو کامیاب بنانے کے لیے کچھ عملی اقدامات ضروری ہوں گے۔ انٹرنیٹ کا معیار، شناخت کی تصدیق اور وقت کے فرق جیسے مسائل سامنے آ سکتے ہیں۔ لیکن اگر قونصل خانوں میں خصوصی ’’ورچوئل کورٹ رومز‘‘ قائم کر دیے جائیں اور ایک آن لائن پورٹل بنایا جائے جہاں کاغذات اپلوڈ اور تصدیق کیے جا سکیں تو یہ رکاوٹیں آسانی سے دور ہو سکتی ہیں۔
امیدوں بھرا مستقبل
یہ فیصلہ صرف قانونی اقدام نہیں بلکہ ایک احساس ہے، ایک پیغام ہے کہ وطن اپنے بیٹوں کو نہیں بھولا۔ اب وہ جہاں بھی ہوں، اپنی زمین، جائیداد یا خاندان کے معاملات کے لیے خود کو بے بس نہیں سمجھیں گے۔ عمران جیسے لاکھوں پردیسیوں کے لیے یہ فیصلہ ایک نئی صبح کی نوید ہے۔