کھیل معاشروں کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے ہیں جو نفرتوں کو کم اور قربتوں کو بڑھانے کا ذریعہ ہوتے ہیں مگر بدقسمتی سے بھارت جیسے ملک نے کھیل کے میدانوں کو بھی سیاسی اکھاڑہ بنا دیا ہے۔
بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ بگھونت مان نے بھارتی کھلاڑیوں کی پاک بھارت میچ میں اخلاق سے پست روئیے پر دلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی کھلاڑیوں نے ہاتھ نہ ملا کر کون سا آپریشن سندور جیت لیا ہے۔
ایشیا کپ کے 14 ستمبر 2025 کو دبئی میں پاک بھارت میچ کے بعد انڈین کپتان و ٹیم نے میچ کے خاتمے پر ہاتھ نہیں ملایا۔ کھیلوں میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے مگر جیتنے والی ٹیم اور اس کے کھلاڑی ہارنے والی ٹیم سے مصافحہ کرتی ہے تاکہ سپورٹس مین شپ کا اظہار ہو سکے۔ افسوس بھارتی کپتان سوریا کمار یادیو کا پاکستانی کپتان سلمان علی اغہ سے ہاتھ نہ ملانا اور ان کا یہ بیان دینا کہ
"کچھ چیزیں سپورٹس مین سپرٹ سے بڑھ کر ہوتی ہیں” نے ایک سوال چھوڑا ہے اور اس سوال کا جواب ہر شخص کو ڈھونڈنا چاہیئے جو کھیل کی روح کو سمجھتا ہو۔
بھارت کھیل کے میدانوں کو سیاسی اور جذباتی جنگ میں تبدیل کر رہا ہے اور کھیلوں کی روح پر کاری ضربیں لگا رہا ہے۔ کھیلوں میں عدم برداشت اور منافرت داخل کرکے بھارت دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتا ہے؟ کروڑوں شائقین کرکٹ جو اپنے ہیروز سے صرف کرکٹ کے ہنر ہی نہیں بلکہ اعلیٰ اخلاق سیکھنے کی توقع رکھتے ہیں وہ بھارتی کھلاڑیوں کی پست ذہنیت دیکھ کر مایوس ہو جاتے ہیں کیونکہ قومیں اپنے کھلاڑیوں کے اخلاق و کردار سے پہچانی جاتی ہیں۔
بھارتی کھلاڑیوں کے حالیہ منفی رویئے ملکوں کی شبیہہ عالمی سطح پر نقصان پہنچاتے ہیں اور ایک ایسی خلیج پیدا کرتے ہیں جسے دور کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
قارئین کرام کو بتاتا چلوں کہ دونوں ممالک کے درمیان یہ تلخیاں نئی نویلی نہیں ہیں اور بھارت وقتاً فوقتاً کھیل کے میدانوں کو اپنی سیاسی نقطہ بازی کے لئے استعمال کرتا رہا ہے۔
1956 کے میلبورن اولمپکس میں پاک بھارت ہاکی ٹیموں کے فائنل میچ کو ہی دیکھ لیجیے جو انتہائی جذباتی میچ تھا اور پاکستان نے اس فائنل میچ میں بھارت کو شکست دے کر پہلی بار گولڈ میڈل جیتا تھا۔ اس موقع پر بعض بھارتی کھلاڑیوں نے تقریب میں اپنے میڈل لینے سے انکار کر دیا تھا جو اس وقت تلخ حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے۔ اسی طرح 1990 کی دہائی میں شارجہ میں کھیلے جانے والے میچوں میں جذباتی پن عروج پر رہا۔
1991 میں بھی ایک میچ کے دوران بھارتی کھلاڑیوں نے پاکستانی کھلاڑیوں سے ہاتھ ملانے سے گریز کیا تھا اور اس پر اس وقت کے میڈیا نے بھارت پر کڑی تنقید کی تھی۔ اسی طرح اسکوائش، باکسنگ اور دیگر کھیلوں میں بھی دونوں ممالک کے کھلاڑی اکثر انتہائی دباؤ کا شکار رہے۔
دوسری طرف دنیا میں بے شمار ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں انتہائی سخت حریفیت کے باوجود کھلاڑیوں نے کھیل کی روح کو مقدم رکھا۔
جرمنی اور فرانس دونوں ممالک کے درمیان دو جنگیں لڑی گئیں لیکن آج بھی ان کی فیڈرل ٹیمیں میچ کے شروع اور آخر میں ایک دوسرے کا بھرپور احترام کرتی ہیں۔ ان کی حریفیت میدان تک محدود رہتی ہے۔
روڈیجرز بمقابلہ فیڈرر (ٹینس) ان دونوں عظیم کھلاڑیوں کی حریفیت ٹینس کی تاریخ کی سب سے بہترین مانی جاتی ہے۔ لیکن میچ کے بعد ان کا ایک دوسرے کے لیے احترام اور محبت ہمیشہ عیاں رہی۔ انہوں نے ثابت کیا کہ سخت مقابلہ اور اعلیٰ اخلاق ایک ساتھ چل سکتے ہیں۔
اولمپک کھیلوں کا مقصد ہی دنیا کے مختلف ممالک کے نوجوانوں کو دوستی اور امن کے جذبے کے تحت اکٹھا کرنا ہے۔ یہاں دشمن ممالک کے کھلاڑی بھی ایک دوسرے کے ساتھ کھیلتے اور گھلتے ملتے دیکھے جا سکتے ہیں۔
بھارت کو چاہئے کہ وہ کھیل کو کھیل ہی رہنے دے۔ اس حوالے سے بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ بگھونت مان نے درست کہا ہے کہ کرکٹ میچ کے بعد ہاتھ نہ ملا کر بھارت نے کون سا آپریشن سندور جیت لیا؟
بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے بھارت کی منافقت کھول کر رکھ دی اور انکشاف کیا ہے کہ امیت شاہ کے بیٹے کے پیسے لگے ہوئے تھے اس لئے پاک بھارت میچ لازمی تھا۔ میچ کے بعد ہاتھ نہ ملا کر منافقانہ سیاست کی گئی۔
مودی سرکار کب تک عوام کو بے وقوف بنائے گی؟ وزیر اعلیٰ بگھونت مان نے کہا کہ بھارتی حکومت کھیلنے کی اجازت دیتی ہے تو سکھ اور پاکستانیوں کی مشترکہ فلموں کو کیوں روکتی ہے؟ بی جے پی حکومت سکھوں کو اپنے مذہبی مقامات پر جانے سے کیوں روکتی ہے؟ سکھوں کو ننکانہ صاحب اور کرتارپور صاحب متھا ٹیکنے کی اجازت کیوں نہیں ہے؟
بھارت نے اس سال سکھ یاتریوں کو پاکستان میں مذہبی مقامات کی زیارت کی اجازت نہیں دی۔ پہلے سیلاب اور اب مذہبی رکاوٹیں بھارت میں سکھوں کے دلوں میں نفرت بڑھا رہی ہیں۔ سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ سکھ عوام ننکانہ صاحب کی زیارت کی اجازت نہ ملنے پر غم و غصے کی حالت میں ہیں۔
اور حرف آخر یہ کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کرکٹ کھیلنے کا مقصد صرف فتح حاصل کرنا نہیں بلکہ ان لاکھوں شائقین کو ایک لمحہ خوشی فراہم کرنا ہے جو سیاست سے بالاتر ہو کر صرف اچھا کھیل دیکھنا چاہتے ہیں۔ سیاست دانوں کے بیانات اور سرحدوں پر تناؤ کو کھیل کے خوبصورت میدانوں تک نہیں پہنچنا چاہیے۔
کھلاڑی اپنی قوم کا پرچم بلند کرنے کے لیے کھیلیں، نفرت پھیلانے کے لیے نہیں۔ کیونکہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جو فتوحات نفرت کی بنیادوں پر حاصل کی جاتی ہیں وہ عارضی ہوتی ہیں لیکن جو احترام اور اعلیٰ اخلاق سے جیتا جاتا ہے وہ ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ اس لئے بہتر ہوگا کہ بھارت کھیل کو کھیل ہی رہنے دے۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
ڈاکٹر محمد منیر ایک معروف اسکالر ہیں جنہیں تحقیق، اکیڈمک مینجمنٹ، اور مختلف معروف تھنک ٹینکس اور یونیورسٹیوں میں تدریس کا 26 سال کا تجربہ ہے۔ انہوں نے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس اینڈ سٹریٹیجک سٹڈیز (DSS) سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
View all posts

