بھارتی پنجاب اپنی زرخیز زمینوں، زراعتی کھیتوں اور دریاؤں کی بدولت بھارت کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن آج یہ ایک سنگین بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ حالیہ دنوں کی اطلاعات نے اس صورتحال کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ دراصل یہ ایک نئی بحث کا آغاز بھی کر رہا ہے کہ کیا یہ قدرتی آفات ہیں یا دہلی حکومت کی جان بوجھ کر اختیار کردہ حکمت عملی کا حصہ؟
سکھ برادری کا کہنا ہے کہ پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے پنجاب کو اقتصادی اور معاشرتی طور پر مفلوج کیا جا رہا ہے۔ یہ نقطہ نظر صرف شکوک و شبہات تک محدود نہیں بلکہ پنجاب کی گلیوں میں عام گفتگو کا بڑا موضوع بن چکا ہے۔
پنجاب کے لوگوں کی یہ شکایت کوئی نئی بات نہیں کہ دہلی حکومت ہمیشہ ان کے وسائل پر کنٹرول اور استحصال کرتی رہی ہے مگر حالیہ سیلابوں نے اس بے چینی کو اور بھی بڑھا دیا ہے۔ سکھ برادری مسلسل یہ مؤقف پیش کر رہی ہے کہ پانی ایک ہتھیار بن چکا ہے۔ سکھوں کا کہنا ہے کہ ڈیموں کے دروازے جان بوجھ کر کھولے گئے تاکہ دریاؤں کا رخ بدل کر پنجاب کے دیہات اور فصلوں کو نقصان پہنچایا جائے۔
یہ الزام اس وقت زیادہ سنجیدہ ہو جاتا ہے جب ماضی کے حکومتی بیانات یاد آتے ہیں جن میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ اگر ضرورت پیش آئے تو ایسے اقدامات کیے جائیں گے۔ اس میں صراحت سے بیان ہوا تھا کہ ضرورت کے وقت پانی کو پنجاب کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ آج وہی الفاظ حقیقت بن رہے ہیں۔ پنجاب میں کھیت برباد ہوگئے، ہزاروں گھر تباہ ہو گئے اور لاکھوں افراد روزگار کے مسائل کا شکار ہوگئے۔
اس صورتحال میں دہلی کیخلاف بھارتی پنجاب کے لوگوں کے دلوں میں شدید نفرت پیدا ہوگئی ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر لاکھوں کی تعداد میں لوگ بھارت سرکار پر قدرتی آفات کے انجنیئر ہونے کا الزام زور و شور سے لگا رہے ہیں۔ عوام ببانگ دہل اس امر کا اظہار کر رہے ہیں کہ یہ صرف بارشوں کا نتیجہ نہیں بلکہ مرکزی حکومت کی بدنیتی کا نتیجہ ہے۔
ایسی ویڈیوز اور تصویریں تیزی سے وائرل ہو رہی ہیں جن میں متاثرہ کسان دہلی کیخلاف دہائیاں دے رہے ہیں۔ نوجوان طبقہ انسٹاگرام، ایکس اور فیس بک پر "Punjab Under Attack” جیسے ہیش ٹیگز بنا کر اپنی آواز بلند کر رہا ہے۔ یہ ڈیجیٹل آوازیں صرف جذباتی نہیں بلکہ سیاسی صورت اختیار کر رہی ہیں جو مرکزی حکومت کے لیے کسی خطرے سے کم نہیں۔
اس بحران میں بھارتی پنجاب کی صوبائی حکومت بالکل بے بس نظر آتی ہے۔ پنجاب حکومت مرکز کے فیصلوں کیخلاف کوئی قدم نہیں لے سکتی اور نہ ہی سیلاب متاثرین کو ریلیف دینے کی خاطر خواہ صلاحیت رکھتی ہے۔ اس وجہ سے بھارتی پنجاب کے باسیوں میں یہ تاثر مضبوط ہو گیا ہے کہ پنجاب حکومت دہلی کے کنٹرول میں ہے اور صرف ایک نمائشی ڈھانچے کے طور پر کام کر رہی ہے۔
سیلاب سے متاثر افراد جب مدد کے لیے مرکز یا چندی گڑھ کی طرف دیکھتے ہیں تو انہیں صرف خالی خولی وعدے اور بیانات سننے کو ملتے ہیں جبکہ عملی اقدامات کہیں دکھائی نہیں دے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب کے عوام نے اپنی صوبائی حکومت پر عدم اعتماد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت ایک کٹھ پتلی ہے جو مرکز کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔
ان حالات میں پنجاب میں مزاحمتی تحریکیں ایک مرتبہ پھر سر اٹھا رہی ہیں۔ نوجوان طبقہ جو پہلے سے ہی بے روزگاری اور استحصال سے تنگ تھا اب زیادہ انتہا پسند، بنیاد پرست اور سخت موقف کے ساتھ سامنے آ رہا ہے۔
اس پس منظر کی روشنی میں امرت پال سنگھ کا نام سب سے نمایاں ہو کر سامنے آیا ہے۔ وہ عوامی رابطوں اور خطابات کے ذریعے یہ مؤقف انتہائی مضبوط انداز میں پیش کر رہے ہیں کہ بھارت میں بسنے والی سکھ برادری کو دہلی سرکار کے شکنجے سے چھٹکارا دلانے کا وقت آ چکا ہے۔ امرت پال سنگھ کو لوگ ایک بہادر اور بے خوف نوجوان رہنما سمجھتے ہیں۔ ایسا رہنما جو کھل کر مودی سرکار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی ہمت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پنجاب کی تمام گلیوں، کوچوں، دیہات اور شہروں میں نوجوان نسل امرت پال سنگھ کے گرد جمع ہو رہی ہے۔
سیلاب نے اس تبدیلی کو مزید تیز کر دیا ہے۔
اب لوگ کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ:
پانی ہتھیار بن چکا ہے اور پنجاب میدانِ جنگ ہے ⚔️
یہ جملہ پنجاب کی موجودہ کیفیت کا بہترین عکاس ہے۔ پنجاب کے دیہات میں کسان اپنی اجڑی فصلوں کے سامنے کھڑے ہو کر مرکزی حکومت کیخلاف دہائیاں دے رہے ہیں جبکہ شہروں میں نوجوان اپنے موبائل فون کے ذریعے ویڈیو بنا کر دنیا کو آگاہ کر رہے ہیں کہ کیسے پنجاب کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ اس احتجاج کی گونج نہ صرف پنجاب بلکہ بھارت کے طول و عرض میں سنائی دے رہی ہے۔
بھارت کی مرکزی حکومت کے لیے یہ صورتحال کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔ ایک طرف مودی سرکار بھارت کو دنیا کے سامنے جمہوریت اور ترقی کی علامت بنا کر پیش کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف پنجاب جیسے حساس علاقے میں بداعتمادی اور احتجاج کی لہر بڑھ رہی ہے۔
اگر مودی سرکار نے یہ سمجھا ہو کہ پنجاب کے لوگوں کا غصہ وقتی طور پر ہے تو یہ اس کی فاش غلطی ہوگی۔ کیونکہ پانی صرف کھیتوں اور گھروں کو ہی نقصان نہیں پہنچا رہا بلکہ لوگوں کے دلوں میں بھی نفرتوں کو بڑھاوا دے رہا ہے اور یہ نفرت آنے والے وقت میں کسی بڑی تحریک کا سبب بن سکتی ہے۔
عالمی برادری کی نظر میں یہ مسئلہ صرف بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں رہا کیونکہ دنیا بھر میں بسنے والی سکھ برادری اس صورتحال کو بین الاقوامی فورمز پر اٹھا رہی ہے۔
برطانیہ، کینیڈا اور امریکہ جیسے ممالک میں رہنے والے سکھ دہلی کے خلاف کھل کر احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عالمی برادری نئی دہلی کو جوابدہ ٹھہرائے اور بھارتی پنجاب کے عوام کے ساتھ انصاف کرے۔
بھارتی پنجاب میں حالیہ سیلابوں سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ مودی سرکار کی پالیسیوں کو عوام برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ پانی کو ہتھیار بنانے کا الزام ایک ایسی حقیقت بنتا جا رہا ہے جو صرف سیاسی نعروں تک محدود نہیں۔ کیونکہ اس وقت بھارت میں لاکھوں لوگوں کی زندگیاں اجڑ گئی ہیں۔ پنجاب کی ریاستی حکومت کی بے بسی، مودی سرکار کی بدنیتی اور عوامی عدم اعتماد نے مل کر ایک ایسا تباہ کن ماحول پیدا کر دیا ہے جو کسی بھی وقت بڑے سیاسی دھماکے میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
سیلاب کا پانی وقت گزرنے کے ساتھ شاید اتر تو جائے لیکن عوام کے دلوں میں مرکزی حکومت کے خلاف شدید نفرت اور بداعتمادی کا سیلاب بھی امڈ آیا ہے۔ یہ حالات آسانی سے تبدیل نہیں ہوں گے۔ پنجاب کے لوگوں میں روز بروز غصہ بڑھتا جا رہا ہے اور بھارت کی سیاست پر اس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
ظہیرال خان ایک مضبوط تعلیمی اور پیشہ ورانہ پس منظر کے ساتھ، وہ بین الاقوامی تعلقات میں مہارت رکھتا ہے اور بڑے پیمانے پر سیکورٹی اور اسٹریٹجک امور کے ماہر کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔
View all posts