افغانستان ہمیشہ سے خطے کی سیاست کا اہم مرکز رہا ہے۔ طالبان کے اگست 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے یہ اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے ۔کیونکہ عالمی طاقتیں اور خطے کے ممالک وہاں اپنے اثرورسوخ کو قائم رکھنے کی دوڑ میں ہیں۔ ایسے میں بھارت کا کردار نمایاں ہونے کے بجائے مسلسل متنازع اور دوغلا ثابت ہو رہا ہے۔ حالیہ واقعہ، جس میں بھارت نے طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کے لیے اقوام متحدہ سے سفری چھوٹ کی درخواست واپس لے لی اور پھر اس کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی۔ یہ نئی دہلی کی سیاسی منافقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
گذشتہ دنوں بھارت نے طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کے مجوزہ دورۂ بھارت کے لیے سلامتی کونسل کی پابندی کمیٹی میں سفری چھوٹ کی درخواست دی تھی۔ یہ وہی متقی ہیں جن پر اب بھی سفری پابندی، اثاثے منجمد کرنے اور اسلحے کی خرید و فروخت پر پابندی عائد ہے۔ بظاہر بھارت نے یہ تاثر دیا کہ وہ طالبان کے ساتھ عملی تعلقات قائم کرنے کے لیے قدم اٹھا رہا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ مغربی ممالک کی ممکنہ مخالفت کے خوف سے بھارت نے یہ درخواست خاموشی سے واپس لے لی۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ناکامی کے بعد بھارت نے پروپیگنڈہ شروع کر دیا کہ یہ سب پاکستان کی وجہ سے ہوا کیونکہ اسلام آباد اس وقت اقوام متحدہ کی 1988 پابندی کمیٹی کی صدارت کر رہا ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پاکستان نے نہ صرف کبھی مخالفت نہیں کی بلکہ اس معاملے میں کوئی رکاوٹ بھی نہیں ڈالی۔ اصل میں بھارت خود مغربی دباؤ کے سامنے جھک گیا اور پھر اپنی کمزوری کو چھپانے کے لیے پاکستان پر الزام دھرا۔ یہ رویہ بھارت کی منافقت اور بزدلی کی عکاسی کرتا ہے۔
یہ صورتحال اس وقت اور بھی دلچسپ ہو جاتی ہے جب اس کا موازنہ پچھلے ماہ کے ایک واقعے سے کیا جائے۔ اس وقت امیر خان متقی کا پاکستان کا دورہ بھی مجوزہ تھا۔ مگر امریکہ کی جانب سے مخالفت کے باعث یہ ممکن نہ ہو سکا۔ فرق یہ تھا کہ پاکستان نے اپنی پوزیشن پر ڈٹے رہنے کی کوشش کی۔ جبکہ بھارت نے لڑائی شروع ہونے سے پہلے ہی ہتھیار ڈال دیے۔ نئی دہلی نے اپنی کمزوری چھپانے کے لیے الزام تراشی کا سہارا لیا جو کہ بین الاقوامی تعلقات میں اس کی غیر سنجیدگی کو واضح کرتا ہے۔
بظاہر بھارت طالبان کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات سے انکار کرتا ہے، لیکن پردے کے پیچھے کہانی بالکل مختلف ہے۔ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے بھارت مسلسل رابطوں میں ہے۔ وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور امیر خان متقی کے درمیان صرف اسی سال میں دو بار براہِ راست بات چیت ہو چکی ہے۔ جن میں سے ایک حال ہی میں یکم ستمبر کو ہوئی۔ اس کے علاوہ بھارت نے افغانستان میں زلزلے کے متاثرین کے لیے ریلیف کا کام بھی غیر معمولی تیزی سے مکمل کیا تاکہ وہ دنیا کو اپنی خیرخواہی دکھا سکے مگر اصل مقصد کابل میں اپنی جگہ بنانا تھا۔ اس کے پیچھے اصل خوف چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا ہے کیونکہ بیجنگ نے کابل کے ساتھ تیزی سے تعلقات استوار کیے ہیں اور وہاں سرمایہ کاری کے منصوبے بھی شروع کر دیے ہیں۔ بھارت کے لیے یہ صورتحال کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔
بھارت کے رویے میں دوغلا پن صاف جھلکتا ہے۔ ایک طرف وہ مغربی طاقتوں کو یہ دکھاتا ہے کہ اس کے طالبان سے تعلقات نہیں ہیں تاکہ امریکہ اور یورپی ممالک کو خوش رکھ سکے۔ دوسری طرف وہ کابل کے حکام کو یقین دلاتا ہے کہ وہ عملی تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے اور افغانستان میں اپنے لیے جگہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھارت نے اپنی درخواست واپس لی اور پھر جھوٹا الزام پاکستان پر تھوپا، تو دنیا کے سامنے اس کی اصلیت بے نقاب ہو گئی۔ یہ عمل اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت اپنی پالیسیوں پر قائم رہنے کی ہمت نہیں رکھتا اور ہر مشکل وقت میں بہانے تراش کر اپنی کمزوری چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ بھارت ہمیشہ خود کو علاقائی طاقت کے طور پر پیش کرتا ہے۔ لیکن افغانستان کے معاملے نے یہ ثابت کر دیا کہ یہ دعویٰ محض زبانی جمع خرچ ہے۔ ایک علاقائی طاقت کو چاہیے کہ وہ اپنے فیصلے آزادانہ کرے اور بین الاقوامی دباؤ کے بجائے اپنے قومی مفاد کو ترجیح دے۔ لیکن بھارت ایسا کرنے کے قابل نہیں۔ وہ اقوام متحدہ کی تکنیکی پیچیدگیوں، مغربی منظوری اور سفارتی حربوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتا ہے۔ امیر خان متقی کے دورے کی منسوخی نے واضح کر دیا کہ بھارت اپنی پالیسی میں مستقل مزاجی نہیں رکھتا۔ وہ ایک جانب طالبان کو خوش کرنے کے لیے خفیہ روابط رکھتا ہے تو دوسری طرف دنیا کو دھوکہ دینے کے لیے ان تعلقات سے انکار کرتا ہے۔ یہ رویہ ایک بڑے ملک کے شایانِ شان نہیں بلکہ کمزور اور بزدل سفارت کاری کی علامت ہے۔

پاکستان کے لیے یہ صورتحال کئی پہلوؤں سے اہم ہے۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اسلام آباد کو دنیا کے سامنے بھارت کی اس دوغلی پالیسی کو بے نقاب کرنا چاہیے۔ پاکستان ہمیشہ شفاف انداز میں بات کرتا رہا ہے اور طالبان کے ساتھ اس کے تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ اس کے برعکس بھارت اپنی دوہری پالیسی کو چھپانے کے لیے جھوٹ اور پروپیگنڈے کا سہارا لیتا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ عالمی سطح پر یہ بات اجاگر کرے کہ بھارت نہ تو ایک قابلِ اعتماد شراکت دار ہے اور نہ ہی ایک ذمہ دار علاقائی طاقت۔ افغانستان جیسے حساس معاملے میں بھارت کا یہ رویہ خطے کے امن کے لیے بھی خطرناک ہے کیونکہ یہ جھوٹ اور بداعتمادی کو فروغ دیتا ہے۔
افغانستان میں بھارت کی منافقت اور دوغلی پالیسی اب ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ طالبان کے وزیر خارجہ کے دورے کے معاملے نے یہ واضح کر دیا کہ نئی دہلی اپنے مفادات کے لیے کبھی بھی جھوٹ اور الزام تراشی سے گریز نہیں کرتا۔ ایک طرف وہ طالبان سے خفیہ تعلقات رکھتا ہے۔ اور دوسری طرف دنیا کے سامنے انکار کرتا ہے۔ مغربی دباؤ کے سامنے جھکنے کے بعد اپنی ناکامی کو پاکستان پر ڈال دینا بھارت کی بزدلی اور منافقت کی سب سے بڑی مثال ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ عالمی سطح پر اس حقیقت کو اجاگر کرے تاکہ دنیا یہ دیکھ سکے کہ بھارت کس طرح ایک طرف امن و استحکام کے نعرے لگاتا ہے اور دوسری طرف اپنے دوغلے رویے سے خطے میں بداعتمادی کو بڑھاتا ہے۔ یہ وقت ہے کہ بھارت کی اس منافقت کو بے نقاب کر کے دنیا کو دکھایا جائے کہ اصل ذمہ دار کون ہے۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
View all postsانیس الرحمٰن ایک مصنف اور تجزیہ کار ہیں جو اس وقت پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ اردو میں وہ بین الاقوامی تعلقات اور عالمی مسائل میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، اکثر ان موضوعات پر بصیرت انگیز تجزیے لکھتے ہیں۔ ای میل:
