پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے دہشتگردوں اور شدت پسندوں کی ناپاک سازشوں کا شکار رہا ہے۔ جو دین کے نام پر معاشرے کو تقسیم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کبھی مذہب کے نام پر، کبھی فرقہ واریت کے لبادے میں اور کبھی نام نہاد جہاد کے دعووں کے تحت معصوم انسانوں کا خون بہایا گیا حالانکہ اسلام کلی طور پر خون ریزی اور بغاوت کی مذمت کرتا ہے۔ یہ سلسلہ صرف انسانی جانوں کا زیاں ہی نہیں تھا بلکہ اسلام کی خوبصورت تعلیمات کو مسخ کرنے اور پاکستان کی اساس کو کمزور کرنے کی ایک منظم کوشش بھی تھی۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے "اور زمین میں اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلاؤ” (الاعراف 56)۔ یہ آیت مبارکہ اس حقیقت پر مہر ثبت کرتی ہے کہ کسی بھی معاشرے میں انتشار، خانہ جنگی اور خونریزی اسلام کے اصولوں سے سراسر انحراف ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا "جو میری امت کے خلاف خروج کرے اور نیک و بد سب کو قتل کرے اور کسی اہل ایمان کو لحاظ نہ کرے تو وہ مجھ میں سے نہیں” (صحیح مسلم، حدیث 1848)۔
آج اگر ہم اپنے حالات پر نگاہ ڈالیں تو دیکھتے ہیں یہ پاکستان میں سرگرم دہشت گرد انہی باغیوں کے مصداق تھے جن کی مذمت نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صدیوں پہلے فرما دی تھی۔ ایسے نازک حالات میں جنوری 2018 کی وہ گھڑی پاکستان کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائے گی جب تمام مکاتب فکر کے 1800 سے زائد نامور علماء اور مفتیان کرام نے اکٹھے ہو کر پیغام پاکستان کے نام سے ایک تاریخی فتویٰ دیا، یہ محض ایک فتویٰ نہیں بلکہ پاکستان کی فکری و نظریاتی وحدت کا عہد نامہ تھا۔ اس میں نہ صرف خودکش حملوں اور مسلح بغاوت کو حرام قرار دیا گیا بلکہ اس حقیقت کو بھی واضح کیا کہ جہاد کا اعلان صرف اور صرف ریاست کا حق ہے جیسے کہ قرآن مجید میں ہے "اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ کی، اطاعت کرو رسول کی اور اپنی حکمرانوں کی” (النساء 59)۔
اسی خطے پر مدارس اور علماء کی یکجہتی نے انتہا پسند بیانیوں کو کمزور کر دیا اور ثابت کیا کہ پاکستان کے علماء، مدارس اور ریاستی ادارے اسلام کے تقدس کے محافظ اور پاکستان کی خود مختاری کے پاسبان ہیں۔ یہ آیت کریمہ شدت پسندوں کے اس پروپیگنڈے کو جڑ سے کاٹ دیتی ہے جو ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے کو جہاد کا نام دیتے تھے۔
پاکستان کے دشمنوں کی ایک پرانی چال رہی ہے کہ مدارس اور علماء کو بدنام کر کے یہ تاثر دیا جائے کہ شدت پسندی کا سرچشمہ یہی ادارے ہیں حالانکہ حقیقت برعکس ہے۔ مدارس نے قیام پاکستان کے وقت بھی اپنی علمی اور فکری قوت سے تحریک پاکستان کو مہمیز کیا اور آج بھی مدارس پاکستان کے فکری محاذ پر سب سے زیادہ مضبوط قلعہ ہیں۔ مدارس نے اپنی اجتماعی تائید سے اس بیانیے کو تقویت بخشی اور ثابت کر دیا کہ پاکستان کے علماء شدت پسندوں کے آلہ کار نہیں بلکہ امن کے نگہبان ہیں۔
علماء کا یہ اتحاد اس لیے بھی اہم ہے کہ پاکستان میں دہشت گرد ہمیشہ فرقہ وارانہ تقسیم کا سہارا لیتے رہے ہیں۔ جب بریلوی، دیوبندی، اہلحدیث اور شیعہ علماء ایک پلیٹ فارم سے اعلان کرتے ہیں کہ شدت پسندی حرام ہے تو اس کا مطلب ہے شدت پسند بیانیہ کی کمر ٹوٹ گئی۔ قرآن کی سورہ الاعراف کی آیت 56 فساد فی الارض سے روکتی ہے اور پاکستان میں دہشت گردی فساد ہے جہاد نہیں۔ مدارس نے ہر مکتب فکر کے ساتھ مل کر انتہا پسند بیانیہ کو رد کیا اور قومی و دینی وحدت کو مضبوط بنایا۔
فتوے میں واضح کیا گیا کہ پاکستان کے آئین کے خلاف بغاوت دراصل قرآن و سنت کے خلاف بغاوت ہے۔ اس اجتماعی فیصلے نے شدت پسندوں کے اسلام کے غلط استعمال کا دروازہ بند کر دیا اور نوجوانوں کو انتہا پسندی سے بچایا۔ تاریخ گواہ ہے کہ مدارس نے پاکستان کو علم کی طاقت سے بنایا اور آج اس اتحاد کے ذریعے اس کا دفاع کر رہے ہیں۔ ریاستی اختیار کے ساتھ کھڑے ہو کر علماء نے ثابت کردیا کہ وہ اسلام کے تقدس اور پاکستان کی خود مختاری کے محافظ ہیں۔
پیغام پاکستان کانفرنس کے بعد دہشت گردی کے بیانیے کو بڑا دھچکا لگا۔ اب اگر کوئی شخص خودکش حملے یا ریاست کے خلاف بغاوت کو جہاد قرار دیتا ہے تو اس کے سامنے پیغام پاکستان کانفرنس کا فتویٰ دیوار کی طرح موجود ہے۔ یہ ایک ایسی علمی و دینی مستند سند ہے جو ہر شدت پسند کے جھوٹ کو بے نقاب کر دیتی ہے۔ عالمی سطح پر بھی اس خطے کو پذیرائی ملی اور اسے دہشت گردی کے خلاف ایک ماڈل قرار دیا گیا۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
حسین جان کے علمی مفادات بین الاقوامی سلامتی، جغرافیائی سیاسی حرکیات، اور تنازعات کے حل میں ہیں، خاص طور پر یورپ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے۔ انہوں نے عالمی تزویراتی امور سے متعلق مختلف تحقیقی فورمز اور علمی مباحثوں میں حصہ ڈالا ہے، اور ان کا کام اکثر پالیسی، دفاعی حکمت عملی اور علاقائی استحکام کو تلاش کرتا ہے۔
View all posts
