بھارت بظاہر تو جمہوری ملک ہے جو آئین میں مساوات اور انصاف کو بنیادی اصول قرار دیتا ہے۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ شمال مشرقی ریاست منی پور میں جاری بحران اس بات کی تازہ ترین مثال ہے کہ کس طرح مودی حکومت اور اس کے ادارے اقلیتوں کے خلاف جانبدارانہ پالیسیاں اپنائے ہوئے ہیں۔ ککی زو نوجوانوں کو ذرا سی مزاحمت یا احتجاج پر فوری طور پر نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (NIA) کے حوالے کر دیا جاتا ہے جبکہ میتی نوجوان ایسے ہی سرگرمیوں کے باوجود محفوظ رہتے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف منظم ناانصافی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں نسلی کشیدگی اور بے اعتمادی کو بھی فروغ ملتا ہے۔
حکومت نے منی پور میں امن قائم کرنے کے بجائے ایک مخصوص طبقے کو نشانہ بنانے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ ککی زو نوجوانوں کے ساتھ سختی اور امتیازی رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ انہیں فوری طور پر (NIA) کے حوالے کیا جاتا ہے، ان سے سخت تفتیش کی جاتی ہے اور طویل حراست میں رکھا جاتا ہے۔ اس کے برعکس میتی نوجوان جن پر تشدد، لوٹ مار یا اسلحہ رکھنے کے الزامات ثابت ہوں، انہیں اکثر مقامی سطح پر چھوڑ دیا جاتا ہے یا معمولی قانونی کارروائی کے بعد رہا کر دیا جاتا ہے۔
یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ بھارتی حکومت اپنے قوانین کا استعمال سیاسی مقاصد کے لیے کر رہی ہے۔ انصاف کے بجائے اکثریتی برادری کو بچانے اور اقلیتوں کو مجرم ثابت کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہی رویہ جمہوریت کے بنیادی ڈھانچے کو کھوکھلا کرتا ہے اور اقلیتوں میں احساس محرومی کو بڑھاتا ہے۔
ککی زو علاقوں میں سکیورٹی فورسز کرفیو نافذ کر کے گھروں پر چھاپے مارتی ہیں۔ نوجوانوں کو بلا جواز گرفتار کیا جاتا ہے اور میڈیا میں انہیں ملک دشمن اور دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک ایسا خوف اور دباؤ پیدا کیا جاتا ہے جس سے عام شہری بھی خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔
دوسری جانب میتی اکثریتی علاقوں میں جب تشدد اور لوٹ مار کے واقعات رونما ہوتے ہیں تو حکومت یا تو خاموش رہتی ہے یا کارروائی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ یہ دوہرا معیار ثابت کرتا ہے کہ بھارتی ریاست اپنی سیکیورٹی پالیسی کو برابری کی بنیاد پر نافذ نہیں کر رہی۔ انسانی حقوق کے مبصرین اس صورتحال کو جمہوری اقدار کے خلاف اور آئین کی روح کی نفی قرار دیتے ہیں۔
مودی حکومت کا یہ رویہ محض انتظامی ناکامی نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے سیاسی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ اکثریتی میتی برادری کی حمایت حاصل کرنا اور اقلیتوں کو کمزور کرنا اس پالیسی کا مقصد ہے۔ اس انتخابی حکمت عملی کے تحت ایک طرف ہندو اکثریت کو خوش کیا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف ککی زو اور دیگر قبائلی گروہوں کو جان بوجھ کر دیوار سے لگایا جاتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان منی پور کے سماجی ڈھانچے کو پہنچ رہا ہے۔ وہاں کے باسی پہلے ہی لسانی، مذہبی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم ہیں۔ اب سرکاری جانبداری اس تقسیم کو مزید گہرا کر رہی ہے۔
نتیجتاً باہمی اعتماد ٹوٹ رہا ہے اور نسلی منافرت میں اضافہ ہو رہا ہے جو کسی بھی جمہوری معاشرے کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بارہا بھارتی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ککی زو نوجوانوں کی گرفتاریوں کے دوران قانونی تقاضے پورے نہیں کیے جاتے۔ انہیں وکیل کی سہولت سے محروم رکھا جاتا ہے اور بعض اوقات تشدد کے ذریعے اعتراف جرم کروایا جاتا ہے۔ یہ سب اقدامات بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاہدوں کی خلاف ورزی ہیں جن پر بھارت خود دستخط کر چکا ہے۔ اقلیت کے ساتھ روا رکھے جانے والا یہ سلوک بھارت کی جمہوری ساکھ پر سوالیہ نشان ہے۔ جب اقلیتیں خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگیں تو وہ ریاست پر اعتماد کھو بیٹھتی ہیں اور یہی صورتحال آج منی پور میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔
بھارت کا مرکزی میڈیا بھی حکومت کے اس جانبدارانہ رویے کو تقویت دے رہا ہے۔ ٹی وی چینلز اور اخبارات زیادہ تر میتی بیانیہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں جبکہ ککی زو کمیونٹی کی مشکلات کو نظر انداز کرتے ہیں۔ نوجوانوں کی گرفتاری کو نمایاں کر کے انہیں دہشت گرد دکھایا جاتا ہے۔ لیکن جب میتی نوجوانوں کی جانب سے تشدد یا جانی نقصان ہوتا ہے تو میڈیا خاموشی اختیار کر لیتا ہے۔
یہ غیر متوازن رپورٹنگ عوامی رائے کو متاثر کرتی ہے اور اکثریتی بیانیہ کو مزید مضبوط بناتی ہے۔ یوں میڈیا، حکومت اور سکیورٹی ادارے مل کر ایک ایسا بیانیہ تشکیل دیتے ہیں جو اقلیتوں کے خلاف ہے۔
منی پور ایک کثیر النسلی ریاست ہے جہاں مختلف برادریاں صدیوں سے رہتی آئی ہیں۔ مگر حکومت کے جانبدارانہ اقدامات نے ان کے درمیان خلیج کو وسیع کر دیا ہے۔ نسلی فسادات، باہمی بداعتمادی اور نفرت اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاستی پالیسیوں نے معاشرتی ہم آہنگی کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
اگر یہ صورتحال جاری رہی تو منی پور کے علاوہ پورے شمال مشرقی بھارت میں نسلی تنازعات بھڑک سکتے ہیں۔ اس کے اثرات نہ صرف مقامی سطح پر بلکہ پورے ملک میں محسوس ہوں گے۔
اقوام متحدہ اور کئی عالمی ادارے بھارت میں بڑھتی ہوئی اقلیت مخالف پالیسیوں پر گہری تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔ عالمی رپورٹس کے مطابق منی پور میں جاری نسل کشی ایک انسانی بحران کی شکل اختیار کر رہی ہے۔ مگر بھارتی حکومت عالمی دباؤ کو خاطر میں نہیں لاتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مودی حکومت نے اپنی داخلی سیاست کو عالمی ساکھ پر فوقیت دے دی ہے۔
منی پور کے مسئلے کا حل صرف اسی وقت ممکن ہے جب حکومت اپنی جانبداری ختم کرے اور سب کے لیے یکساں قانون نافذ کرے۔ اقلیتوں کو مساوی حقوق اور انصاف ملنا چاہیے۔ سکیورٹی فورسز کو غیر جانبدار بنایا جائے اور میڈیا کو بھی اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے تمام فریقوں کی آواز کو اجاگر کرنا چاہیے۔ علاوہ ازیں سیاسی قیادت کو چاہیے کہ نسلی اختلافات کو کم کرنے کے لیے مذاکرات کا راستہ اپنائے۔ صرف طاقت کے استعمال سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ یہ مزید بگڑ سکتا ہے۔
منی پور کی صورتحال بھارت کے جمہوری چہرے پر بدنما داغ ہے۔ ککی زو نوجوانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی اور میتی نوجوانوں کے لیے نرم رویہ حکومت کے دوہرے معیار کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف اقلیتوں کے لیے خطرناک ہے بلکہ بھارت کی جمہوریت کے مستقبل کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ اگر بھارت کو واقعی ایک مضبوط اور پر امن ملک بننا ہے تو اسے شہریوں کے ساتھ برابری اور انصاف کا سلوک کرنا ہوگا۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
اکرام احمد یونیورسٹی آف ساؤتھ ویلز سے بین الاقوامی تعلقات میں گریجویٹ ہیں۔ باتھ یونیورسٹی میں، جہاں ان کی تحقیق تنازعات کے حل، عالمی حکمرانی، بین الاقوامی سلامتی پر مرکوز ہے۔ ایک مضبوط تعلیمی پس منظر اور عالمی امور میں گہری دلچسپی کے ساتھ، اکرام نے مختلف تعلیمی فورمز اور پالیسی مباحثوں میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ ان کا کام بین الاقوامی تعلقات کی حرکیات اور عصری جغرافیائی سیاسی مسائل پر ان کے اثرات کو سمجھنے کے لیے گہری وابستگی کی عکاسی کرتا ہے۔
View all posts

