ایک غیر معمولی اعلان
نیویارک کی سیاست میں ایک ہلچل اس وقت مچ گئی جب ڈیموکریٹک میئر امیدوار زہران ممدانی نے اعلان کیا کہ اگر وہ کامیاب ہو گئے تو اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے نیویارک آنے پر پولیس کو حکم دیں گے کہ انہیں گرفتار کیا جائے۔ یہ ایک ایسا بیان تھا جس نے نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر میں لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔
زہران کا نقطہ نظر
زہران کا تعلق ان سیاستدانوں سے ہے جو فلسطینی عوام کے حق میں کھل کر آواز بلند کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ نیتن یاہو غزہ میں ہونے والی تباہی اور انسانی جانوں کے ضیاع کے ذمہ دار ہیں، اسی لیے انہیں "جنگی مجرم” کہا جانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر بین الاقوامی عدالتِ انصاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کرے تو وہ اپنی ذمہ داری پوری کریں گے۔
یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ زہران صرف مقامی سیاست تک محدود نہیں بلکہ عالمی انصاف اور انسانی حقوق کو بھی اپنی مہم کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔
کیا یہ ممکن ہے؟
بیان تو بڑا دلیرانہ ہے لیکن حقیقت میں اس پر عملدرآمد تقریباً ناممکن لگتا ہے۔ اس کی بڑی وجوہات یہ ہیں
امریکہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف کا رکن نہیں ہے، اس لیے اگر کوئی وارنٹ آ بھی جائے تو اسے ماننا لازمی نہیں۔
نیویارک کے میئر کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی غیر ملکی سربراہ کو گرفتار کر سکیں۔ یہ کام وفاقی حکومت اور خارجہ پالیسی کے دائرے میں آتا ہے۔
غیر ملکی حکمرانوں کو سفارتی استثنا حاصل ہوتا ہے، جس کی وجہ سے انہیں گرفتار کرنا قانونی طور پر ممکن نہیں۔
سیاسی فائدہ یا نقصان؟
یہ درست ہے کہ قانونی طور پر یہ وعدہ کمزور ہے، لیکن سیاست میں بعض اوقات بیانات کا مقصد عملدرآمد نہیں بلکہ عوام کو پیغام دینا ہوتا ہے۔
فلسطین کے حامی اور ترقی پسند حلقوں میں زہران کی مقبولیت بڑھ سکتی ہے۔
اسرائیل نواز حلقے اور مضبوط لابیاں اس بیان کو سخت ردِعمل کے ساتھ مسترد کریں گی۔
عالمی سطح پر یہ پیغام جائے گا کہ امریکی سیاست میں بھی ایسے رہنما موجود ہیں جو طاقتور ملکوں کے خلاف کھڑے ہونے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
عوامی جذبات
سوشل میڈیا پر لوگ دو حصوں میں بٹ گئے ہیں۔ کچھ نوجوان اور انسانی حقوق کے کارکن زہران کو ہیرو قرار دے رہے ہیں، جبکہ کچھ لوگ اسے ایک غیر سنجیدہ اور غیر عملی بیان سمجھ رہے ہیں۔
نتیجہ
زہران ممدانی نے اپنے جرات مندانہ بیان سے نہ صرف نیویارک بلکہ دنیا بھر میں اپنی پہچان بنا لی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے وعدے پر عمل ہونا ممکن دکھائی نہیں دیتا، لیکن انہوں نے ایک اہم مسئلے کو امریکی سیاست کے بیچوں بیچ لا کھڑا کیا ہے۔
آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ زہران کے اس بیان نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے: سیاست صرف اقتدار کا کھیل نہیں بلکہ یہ کمزوروں کی آواز بننے کا نام بھی ہے۔