پاکستان کے جیولن تھرو اسٹار ارشد ندیم ایک بار پھر خبروں کی زینت بن گئے ہیں۔ ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئن شپ کے کوالیفائنگ راؤنڈ میں شاندار پرفارمنس کے بعد وہ فائنل میں پہنچ گئے ہیں۔ ان کی یہ کامیابی نہ صرف ایک کھیل کی خبر ہے بلکہ ایک پوری قوم کے خوابوں اور امیدوں کی عکاسی بھی ہے۔ سوشل میڈیا پر خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور ہر کوئی دعاؤں اور نیک تمناؤں کے ساتھ ان کے پیچھے کھڑا ہے۔
خوابوں کا سفر: گاؤں سے عالمی میدان تک
ارشد ندیم کی کہانی عام نہیں۔ وہ ایک چھوٹے گاؤں کے کچے میدانوں سے نکل کر دنیا کے بڑے مقابلوں میں پہنچے ہیں۔ کھیلوں کے جدید انفراسٹرکچر اور وسائل سے محروم ہونے کے باوجود انہوں نے اپنی محنت، ہمت اور حوصلے سے سب کو حیران کیا۔ کبھی انجری نے ان کے خوابوں کو توڑنے کی کوشش کی، کبھی سہولتوں کی کمی نے قدم روکے، مگر ارشد ہر بار واپس آئے اور پہلے سے زیادہ مضبوط ہو کر۔
کوالیفائنگ راؤنڈ میں جادوئی لمحہ
چیمپئن شپ کے کوالیفائنگ راؤنڈ میں جب ارشد نے اپنا تھرو مارا، تو پورا اسٹیڈیم تالیوں سے گونج اٹھا۔ یہ صرف ایک تھرو نہیں تھا بلکہ برسوں کی محنت اور قربانیوں کا نتیجہ تھا۔ وہ لمحہ پاکستانی شائقین کے لیے جشن سے کم نہیں تھا، کیونکہ اس نے دنیا کو ایک بار پھر یاد دلا دیا کہ پاکستان میں بھی ایسے ہیرو موجود ہیں جو بڑے بڑے پلیٹ فارمز پر مقابلہ کر سکتے ہیں۔
عوامی ردعمل اور امیدیں
جیسے ہی ارشد ندیم کے فائنل میں پہنچنے کی خبر سامنے آئی، ہر طرف خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ بچے ہوں یا بزرگ، سب کے دل ان کے لیے دعا گو ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کا نام ٹرینڈ کر رہا ہے، اور لوگ لکھ رہے ہیں کہ یہ کھلاڑی صرف ایک ایتھلیٹ نہیں بلکہ ایک امید ہے، ایک خواب ہے جو حقیقت بن رہا ہے۔
ماضی کی جھلکیاں اور شاندار کامیابیاں
یہ پہلا موقع نہیں کہ ارشد ندیم نے پاکستان کا نام روشن کیا ہو۔ ٹوکیو اولمپکس 2021 میں وہ فائنل تک پہنچنے والے پہلے پاکستانی جیولن تھرو پلیئر بنے، اور دنیا کو حیران کر دیا۔ اسی طرح کامن ویلتھ گیمز 2022 میں انہوں نے طلائی تمغہ جیت کر پاکستان کو فخر سے سر بلند کر دیا۔ ان کامیابیوں نے انہیں نہ صرف کھیلوں کی دنیا میں بلکہ عام عوام کے دلوں میں بھی جگہ دی ہے۔
نظام پر سوال اور نوجوانوں کے لیے پیغام
ارشد ندیم کی کہانی یہ سوال بھی اٹھاتی ہے کہ اگر ایک کھلاڑی اتنی کم سہولتوں میں دنیا کے بڑے پلیئرز کے ساتھ کھڑا ہو سکتا ہے، تو اگر ملک میں کھیلوں کے لیے بہتر سہولتیں دی جائیں تو نہ جانے کتنے اور ارشد سامنے آ سکتے ہیں۔ وہ نوجوانوں کے لیے پیغام ہیں کہ مشکلات راستے کی رکاوٹ نہیں ہوتیں، اصل چیز حوصلہ اور مسلسل محنت ہے۔
نتیجہ
ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئن شپ کا فائنل ابھی باقی ہے، لیکن ارشد ندیم نے قوم کو ایک بار پھر فخر کا موقع دیا ہے۔ اب سب نظریں اس دن پر لگی ہیں جب وہ اپنا اگلا تھرو کریں گے۔ چاہے نتیجہ کچھ بھی ہو، ایک بات طے ہے—ارشد ندیم صرف ایک کھلاڑی نہیں، بلکہ پاکستان کی ہمت، عزم اور خوابوں کی جیتی جاگتی تصویر ہیں۔