بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتا ہے لیکن اس کے اندر اقلیتوں کے ساتھ ہونے والا سلوک بار بار اس دعوے کی نفی کرتا ہے۔ حالیہ مثال نومبر 2025 کی ہے جب بھارت کی حکومت نے سکھ یاتریوں کو پاکستان آنے اور ننکانہ صاحب میں بابا گرو نانک دیو جی کے جنم دن کی تقریبات میں شرکت کرنے سے روک دیا۔ یہ قدم نہ صرف سکھ برادری کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے بلکہ دہائیوں سے جاری ریاستی ناانصافی اور دہرا معیار بھی نمایاں کرتا ہے۔
سکھ برادری ہمیشہ سے بھارتی ریاستی جبر کا شکار رہی ہے۔ 1984 کے دلی فسادات سے لے کر آج تک سکھوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی طویل تاریخ ہے۔ کبھی ان کی سیاسی آواز دبائی گئی، کبھی معاشی وسائل روکے گئے تو کبھی ان کے پانیوں پر قابض ہو کر انہیں زراعتی مشکلات میں دھکیلا گیا۔ یہی نہیں بلکہ ان کے مذہبی اجتماعات پر بھی مختلف پابندیاں عائد کی جاتی رہی ہیں۔ مودی سرکار کا حالیہ اقدام اسی تسلسل کا حصہ ہے جس میں سیکیورٹی خدشات کے نام پر یاتریوں کو ننکانہ صاحب جانے سے روک دیا گیا۔ سیکیورٹی کے نام پر یاتریوں کو روکنے کا فیصلہ مذہبی آزادی کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ بھارت جس آئین کے ذریعے مذہبی آزادی کا دعوی کرتا ہے خود اسی آئین کی روح کو پامال کرتا ہے۔ سکھ یاتری ہر سال پاکستان کے مختلف مقدس مقامات خصوصاً کرتار پور صاحب اور ننکانہ صاحب پر حاضری دینے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ یہ ان کا بنیادی مذہبی حق ہے کہ وہ اپنے گوروؤں کے دربار میں ماتھا ٹیک سکیں۔ مگر مودی حکومت اس راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔
یہاں بھارتی حکومت کا دوہرا معیار کھل کر سامنے آتا ہے۔ جب مالی مفادات کی بات آتی ہے تو بھارت پاکستان کے خلاف کرکٹ کھیلنے کو بھی تیار ہو جاتا ہے مگر جب مذہبی جذبات کی بات ہو تو سرحدیں بند کر دی جاتی ہیں۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگونت مان نے بھی اس دوہرے رویے کو بے نقاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ میچز ممکن ہیں تو سکھ یاتریوں کی یاترا کیوں ممکن نہیں۔ یہ سوال بھارتی ریاست کے رویے پر ایک بڑا دھبہ ہے۔
اس کے برعکس پاکستان نے ہمیشہ سکھ برادری کے ساتھ خوش دلی اور احترام کا مظاہرہ کیا ہے۔ حکومت پاکستان نے 2019 میں کرتارپور کوریڈور کھول کر ایک تاریخی اقدام کیا جس میں سکھ برادری کے دہائیوں پرانے خواب کو حقیقت بنا دیا۔ آج ہزاروں سکھ یاتری پاکستان آ کر اپنے مقدس مقامات پر بلا خوف و خطر اور مکمل احترام کے ساتھ حاضری دیتے ہیں۔ پاکستان میں نہ صرف انہیں سہولت فراہم کی جاتی ہے بلکہ حکومت اور عوام دونوں ان کے جذبات کا بھرپور احترام کرتے ہیں۔
مودی حکومت کی سخت گیر پالیسیوں کے نتیجے میں بھارت کے اندر سکھ نوجوانوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ انہیں محسوس ہو رہا ہے کہ ان کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ یہ احساس خالصتان تحریک کو نئی توانائی دے رہا ہے۔ جب نوجوان دیکھتے ہیں کہ ان کے مذہبی اجتماعات، زمینیں اور ان کے معاشی حقوق مسلسل سلب کیے جا رہے ہیں تو ان کے ذہن میں علیحدگی کا بیانیہ مزید مضبوط ہوتا ہے۔ یہی وہ پالیسی ہے جو بھارتی وحدت کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن رہی ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری اس معاملے پر خاموش تماشائی نہ بنے۔ اگر بھارت اپنے آئینی تقاضوں اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاہدوں کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی طاقتوں کو آواز اٹھانی چاہیے۔ یہ صرف سکھ برادری کا مسئلہ نہیں بلکہ مذہبی آزادی کے عالمی اصول کا سوال ہے۔ اگر دنیا بھارت کو کھلی چھوٹ دیتی رہی تو یہ مستقبل میں دیگر اقلیتوں کے لیے بھی ایک خطرناک مثال بن سکتی ہے۔
مودی حکومت کا یاتریوں کو روکنے کا فیصلہ واضح کرتا ہے کہ بھارت کا "سب کا ساتھ، سب کا وکاس" صرف ایک نعرہ ہے اور حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ سکھ برادری کو ان کے بنیادی مذہبی حقوق سے محروم کرنا، ان کے جذبات کو مجروح کرنا اور ان کی مذہبی آزادی پر قدغن لگانا نہ صرف بھارتی آئین کی خلاف ورزی ہے بلکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعوے کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔
پاکستان نے بار بار اپنے اقدامات سے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ سکھ برادری کو عزت اور احترام دیتا ہے جبکہ بھارت اپنی پالیسیوں سے نفرت اور بے چینی کو فروغ دے رہا ہے۔ اب ضروری ہے کہ دنیا بھارت کے ان اقدامات کا نوٹس لے اور سکھ برادری کے حقوق کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کرے۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
محمد سلیم برطانیہ میں مقیم مصنف اور محقق ہیں جن کی اسٹریٹجک اسٹڈیز میں ایک مضبوط علمی بنیاد ہے۔ اس کا کام طاقت اور حکمت عملی کی پیچیدگیوں کو تلاش کرتا ہے۔ وہ جغرافیائی سیاست، علاقائی معاملات، اور آج کی دنیا کو تشکیل دینے والے نظریات کے لیے ایک باریک عینک لاتا ہے۔
View all posts