پاکستان کے وزیراعظم نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے اگلے معاشی جائزے میں سیلاب سے ہونے والے تباہ کن اثرات کو ضرور شامل کرے۔ ان کے مطابق پاکستان پہلے ہی معاشی دباؤ، قرضوں کی قسطوں، مہنگائی اور کرنسی کی گرتی قدر جیسے بڑے مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔ ایسے میں سیلاب جیسی آفت نے حالات کو مزید بگاڑ دیا ہے، اور اگر عالمی ادارے ان حقائق کو نظر انداز کریں تو یہ ناانصافی ہوگی۔
سیلاب کا کرب اور معیشت کی مشکلات
گزشتہ برس آنے والے بدترین سیلاب نے لاکھوں خاندانوں کی زندگیاں بدل کر رکھ دیں۔ کھڑی فصلیں برباد ہو گئیں، ہزاروں گاؤں زیرِ آب آ گئے اور لاکھوں افراد بے گھر ہو گئے۔ وہ کسان جو کبھی اپنی زمین سے جڑے خواب دیکھتے تھے، آج کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں۔ بچے تعلیم سے محروم ہیں کیونکہ اسکول ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے ہیں۔
یہ سب صرف انسانی المیہ ہی نہیں بلکہ معیشت کے لیے بھی ایک بھاری بوجھ ہے۔ زرعی پیداوار میں کمی نے خوراک کی قیمتیں بڑھا دیں، کپاس جیسی برآمدی فصل کے نقصان نے ٹیکسٹائل صنعت کو متاثر کیا اور سڑکوں اور پلوں کی تباہی نے تجارت کو سست کر دیا۔
وزیراعظم کی آواز
وزیراعظم نے دنیا کو یاد دلایا کہ پاکستان نے ہمیشہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن قدرتی آفات ایسے زخم چھوڑ جاتی ہیں جو اپنے وسائل سے بھرنا ناممکن ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف جب پاکستان کی معیشت کا حساب لگاتا ہے تو صرف نمبروں پر نہ دیکھے بلکہ ان خاندانوں کو بھی یاد رکھے جن کی زندگیاں اجڑ چکی ہیں۔ یہ جائزہ حقیقت پر مبنی ہونا چاہیے تاکہ پاکستان کو وہ سہولت مل سکے جس کا وہ حقدار ہے۔
موسمیاتی ناانصافی
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کاربن اخراج میں دنیا کے سب سے کم حصہ ڈالنے والے ممالک میں شامل ہے، لیکن موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سب سے زیادہ یہی ملک سہہ رہا ہے۔ وزیراعظم نے یہ بات دو ٹوک انداز میں کہی کہ ترقی یافتہ ممالک اور عالمی اداروں کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے ممالک کو مشکل وقت میں سہارا دیں۔ کیونکہ یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک عالمی ناانصافی ہے۔
آئی ایم ایف کی اہمیت
آئی ایم ایف کے فیصلے صرف ایک ادارے تک محدود نہیں رہتے۔ اس کے جائزے کی بنیاد پر دوسرے عالمی مالیاتی ادارے اور سرمایہ کار بھی اپنی پالیسی طے کرتے ہیں۔ اگر آئی ایم ایف پاکستان کی مشکلات کو تسلیم کرتا ہے اور شرائط میں لچک دکھاتا ہے تو یہ نہ صرف قرض کی ادائیگی کو آسان بنائے گا بلکہ دوسرے ممالک کو بھی پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے کا حوصلہ دے گا۔
عوامی امیدیں
پاکستانی عوام پہلے ہی مہنگائی اور بے روزگاری سے جوجھ رہے ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ لاکھوں خاندان آج بھی خیموں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے لیے وزیراعظم کا یہ مطالبہ محض ایک سفارتی بیان نہیں بلکہ امید کی کرن ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ عالمی ادارے ان کی آواز سنیں اور ایسے فیصلے کریں جو ان کی زندگیوں میں آسانی لا سکیں۔
نتیجہ
وزیراعظم کا یہ مطالبہ اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ معیشت محض نمبروں کا کھیل نہیں بلکہ انسانوں کی زندگیاں بھی اس سے جڑی ہوتی ہیں۔ سیلاب نے پاکستان کو ایسے زخم دیے ہیں جنہیں بھرنے کے لیے عالمی تعاون ناگزیر ہے۔ اب وقت ہے کہ آئی ایم ایف اور دنیا پاکستان کی مشکلات کو سمجھیں اور اس کے ساتھ کھڑے ہوں۔ یہ نہ صرف پاکستان کے عوام کے لیے ریلیف کا ذریعہ ہوگا بلکہ دنیا کو یہ پیغام بھی دے گا کہ مشکل وقت میں انسانیت سب سے پہلے آتی ہے۔