Nigah

پنجاب میں تباہی مچانے کے بعد سیلاب نے سندھ کا رخ کرلیا

پنجاب میں تباہی مچانے کے بعد سیلاب نے سندھ کا رخ کرلیا، کچے کےکئی علاقے اور ہزاروں ایکڑ فصلیں زیرآب

کچے کےکئی علاقے اور ہزاروں ایکڑ فصلیں زیرآب
تعارف

پاکستان ایک بار پھر قدرتی آفت کے سامنے کھڑا ہے۔ پنجاب کو اپنی لپیٹ میں لینے کے بعد اب سیلاب سندھ کے کچے کے علاقوں تک پہنچ گیا ہے۔ دریائے سندھ میں پانی کی بلند ہوتی سطح نے گڈو، سکھر اور کوٹری بیراج پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔ گھروں سے بے گھر لوگ، ڈوبتے کھیت اور روتے کسان وہ مناظر ہیں جو ہر دل کو دکھا رہے ہیں۔

پنجاب سے سندھ تک پانی کا سفر

پنجاب کے جنوبی اضلاع میں تباہی پھیلانے کے بعد پانی تیز بہاؤ کے ساتھ سندھ میں داخل ہوا۔ سکھر، لاڑکانہ، شکارپور اور دادو کے دیہات سب سے پہلے متاثر ہوئے۔ وہ گاؤں جہاں کل تک بچے کھیلتے تھے اور کھیتوں میں سبز لہلہاتی فصلیں ہوا کے ساتھ جھومتی تھیں، آج سنّاٹے اور بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔

کھیت، فصلیں اور کسانوں کا دکھ

کپاس، چاول اور گنے کی وہ فصلیں جن پر کسانوں نے پورا سال پسینہ بہایا، لمحوں میں پانی کی نذر ہو گئیں۔ کسانوں کی آنکھوں میں آنسو اور ہاتھوں میں خالی پن ہے۔ ایک کسان کی یہ فریاد کانوں میں گونجتی ہے: "میری ساری محنت ڈوب گئی، اب بچوں کو کیا کھلاؤں گا؟” یہ صرف کھیتوں کی تباہی نہیں، خوابوں کی بربادی ہے۔ مویشیوں کی ہلاکت نے دیہی معیشت کو اور بھی کمزور کر دیا ہے۔

بے گھر ہونے والوں کا کرب

گھروں کو چھوڑ کر نکلنے والے خاندان عارضی شیلٹرز میں کٹھن زندگی گزار رہے ہیں۔ بچے گندے پانی کے کنارے کھیلنے پر مجبور ہیں، عورتیں کھانے پینے اور صاف پانی کی کمی سے پریشان ہیں اور بزرگ بیماریوں کے سائے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ہر چہرے پر خوف اور بے بسی جھلکتی ہے۔ وہ اپنی زمینوں اور گھروں کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں، لیکن جانتے ہیں کہ اب وہ واپس کب جائیں گے، کوئی نہیں جانتا۔

حکومت اور ریسکیو کی کوششیں

حکومت نے ہنگامی صورتحال نافذ کر دی ہے اور ریسکیو آپریشن جاری ہے۔ کشتیوں کے ذریعے لوگوں کو نکالا جا رہا ہے، کھانے پینے کی اشیاء اور دوائیں تقسیم کی جا رہی ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ متاثرین کی ضرورت کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ ہزاروں لوگ اب بھی امداد کے منتظر ہیں۔

ماہرین کی تنبیہ

ماہرین کے مطابق یہ تباہی صرف بارشوں کا نتیجہ نہیں بلکہ موسمیاتی تبدیلی اور ناقص منصوبہ بندی کا شاخسانہ ہے۔ اگر بروقت بند مضبوط کیے جاتے اور پانی کے بہاؤ کو بہتر انداز میں قابو میں رکھا جاتا تو شاید اتنا نقصان نہ ہوتا۔ یہ منظر یاد دلاتا ہے کہ آنے والے برسوں میں ایسی آفات مزید شدت اختیار کر سکتی ہیں۔

مستقبل کی ضرورت

اب وقت ہے کہ متاثرہ کسانوں کو معاوضہ دیا جائے، بیج اور زرعی امداد فراہم کی جائے تاکہ وہ دوبارہ اپنی زندگی شروع کر سکیں۔ بے گھر خاندانوں کے لیے محفوظ پناہ گاہیں اور طبی سہولیات فراہم کرنا ناگزیر ہے۔ طویل مدتی بنیادوں پر دریاؤں کے کنارے مضبوط بند تعمیر کرنا اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے عالمی تعاون حاصل کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

نتیجہ

پنجاب سے نکلنے والا یہ پانی سندھ کے لاکھوں لوگوں کے خواب اور زندگی بہا لے گیا ہے۔ یہ صرف کھیتوں اور گھروں کی تباہی نہیں بلکہ ایک انسانی المیہ ہے۔ اگر آج ہم نے سبق نہ سیکھا تو کل یہی تباہی پھر ہمارے دروازے پر ہوگی۔ قدرتی آفات کے سامنے سب سے بڑی طاقت صرف انسانی یکجہتی ہے، اور یہی وقت ہے کہ ہم سب مل کر اپنے متاثرہ بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ کھڑے ہوں۔

اوپر تک سکرول کریں۔