دوسری جنگ عظیم تاریخ کا ایک ایسا باب ہے جس نے عالمی طاقتوں کے توازن، سیاست اور معیشت کا رخ یکسر تبدیل کردیا۔ چین نے جاپانی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد کے بعد لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر فتح حاصل کی۔
اس تاریخی فتح کی 80 ویں سالگرہ کے موقع پر چین کے دارالحکومت بیجنگ کے معروف تیانانمن اسکوائر میں ایک شاندار فوجی پریڈ منعقد کی گئی جس میں چین کی مسلح افواج کی جدید ٹیکنالوجیز سے لیس صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا گیا۔ ڈرونز، ہائپر سانک میزائل، جدید ٹینکس، میزائل ڈیفنس سسٹم اور خلائی نگرانی کے نظام نے دنیا پر دھاک بٹھا دی۔ امریکہ اور مغربی ممالک کی ٹیکنالوجی پر اجارہ داری کے پس منظر میں اس پریڈ کی اہمیت مزید بڑھ گئی۔ دنیا کو پیغام دینا تھا کہ چین اپنی سلامتی کے تحفظ کے لیے ہمہ وقت تیار ہے اور اپنی تاریخ کو کبھی نہیں بھولتا۔
آگے بڑھنے سے پہلے چین کی فتح پریڈ کے پس منظر پر مختصراً ذکر ہے کہ چین نے 1931 میں عالمی فسطائیت کے خلاف سب سے پہلے مزاحمت کا آغاز کیا جو دنیا میں سب سے طویل عرصے چلنے والی مزاحمتی تحریک میں شمار کی جاتی ہے۔ چینی عوام کی مسلسل جدوجہد اور ساڑھے تین کروڑ فوجیوں اور عام شہریوں کے جانی نقصان کے نتیجے میں جاپان نے 2 ستمبر 1945 کو باضابطہ طور پر ہتھیار ڈالے۔ اسی تناظر میں چین نے 3 ستمبر کو یومِ فتح کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ 2015 کے بعد یہ دوسرا موقع ہے جب چین نے جاپانی جارحیت کے خلاف چینی عوام کی جدوجہد سے حاصل فتح کی یاد میں بڑے پیمانے پر فوجی پریڈ منعقد کی۔
2025 کی پریڈ کی خاص بات یہ تھی کہ چین نے اپنی وکٹری پریڈ میں دو درجن ممالک کو دعوت دی لیکن صرف پاکستان، کوریا اور روس کے سربراہان کو سٹیج پر لے کر چلنے سے دنیا کو پیغام دیا کہ چاروں ممالک کی سوچ مشترک ہے۔ چاروں ممالک ایٹمی قوت کے حامل ہیں۔ یہ عزت پاکستان کو دہائیوں بعد نصیب ہوئی۔ اس پر پوری قوم کو فخر محسوس کرنا چاہیے اور ماتم کرنے والوں کو ماتم کرنے دیں، انہیں مشورہ ہے کہ رات کو آہیں بھریں اور نیند کی گولیاں کھا لیں۔ پاکستان اور چین کی دوستی کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ سی پیک، بیلٹ اینڈ روٹ انیشیٹو اور دفاعی تعلقات دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے مزید قریب لاتے ہیں۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف کی اس تاریخی پریڈ میں شرکت پاکستان کے اس عزم کی عکاسی کرتی ہے کہ وہ چین کے ساتھ ہر صورت میں کھڑا ہے۔
اس تاریخی پریڈ میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو نظرانداز کر کے سفارتی سطح پر واضح پیغام دیا گیا کہ چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعات اور کشیدگی عروج پر ہے۔ مودی کو اہمیت نہ ملنے سے بھارت کو سفارتی سطح پر مزید سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ پریڈ میں روس، امریکہ، برطانیہ، فرانس اور کینیڈا جیسے ممالک کے وہ افراد یا ان کے اہل خانہ کو بھی مدعو کیا گیا تھا جنہوں نے دوسری جنگ عظیم میں چین کی حمایت کی تھی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کی فوجی پریڈ پر دلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
مجھے یہ بہت شاندار لگی لیکن میں سمجھ گیا کہ وہ یہ کیوں کر رہے تھے، وہ چاہتے تھے کہ میں دیکھوں اور میں دیکھ رہا تھا، پریڈ تو واقعی شاندار تھی، ماننا پڑے گا۔
یومِ فتح پریڈ کی تقریبات کا اختتام آسمان پر 80 ہزار کبوتر اور 80 ہزار غبارے چھوڑ کر کیا گیا۔ چین نے اقوامِ عالم پر زور دیا کہ وہ جنگ کی بنیادی وجوہات کا خاتمہ کریں اور تاریخی سانحات کو دوبارہ رونما ہونے سے روکیں۔ تمام ممالک ایک دوسرے کے ساتھ برابری کی بنیاد پر پیش آئیں، ہم آہنگی کو فروغ دیں۔ چینی صدر نے اپنے کلیدی خطاب میں یہ بات زور دے کر کہی کہ اب وقت آ گیا ہے کہ مہذب دنیا امن یا جنگ میں سے ایک کو چنے۔ انہوں نے کہا کہ انسانیت ایک بار پھر امن یا جنگ، مکالمے یا محاذ آرائی، اور باہمی فائدے یا دوسرے کے نقصان کے درمیان انتخاب کے دو راہے پر کھڑی ہے۔
امریکہ کے بعد چین واحد ملک ہے جو عالمی طاقت کے تمام بنیادی عناصر رکھتا ہے۔ عالمی رہنماؤں کی شرکت نے اس بات کو تقویت دی کہ چین اب الگ تھلگ طاقت نہیں بلکہ عالمی اتحاد کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ چین نے دنیا کو بتا دیا کہ وہ نہ صرف اپنی تاریخ پر فخر کرتا ہے بلکہ مستقبل کی عالمی سیاست میں بھی ایک فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
مصنف ایک معزز میڈیا پیشہ ور ہیں جو نیشنل نیوز چینل ایچ ڈی کے چیف ایگزیکٹو اور "دی فرنٹیئر انٹرپشن رپورٹ" کے ایگزیکٹو ایڈیٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ان سے پر رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔
View all posts