Nigah

گرفتاری سے بچنے کیلیے نیتن یاہو کو کیا کیا جتن کرنے پڑ رہے ہیں

nigah گرفتاری سے بچنے کیلیے نیتن یاہو کو کیا کیا جتن کرنے پڑ رہے ہیں
[post-views]

 

دنیا کے بڑے بڑے رہنما اکثر طاقت، شہرت اور اقتدار کے ساتھ جڑے نظر آتے ہیں، لیکن اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو کی موجودہ صورتحال کچھ اور ہی کہانی سناتی ہے۔ وہ شخص جو کبھی بے خوف دنیا کے کسی بھی کونے کا دورہ کر سکتا تھا، آج اپنے ہر سفر سے پہلے سوچنے پر مجبور ہے کہ کون سا راستہ محفوظ ہے اور کہاں قدم رکھنا خطرناک ہو سکتا ہے۔

پروازوں کے نئے حساب کتاب

کہا جاتا ہے کہ نیتن یاہو کے سفری منصوبے اب کسی عام وزٹ شیڈول کی طرح نہیں بنتے بلکہ ایک پیچیدہ حساب کتاب کے بعد طے کیے جاتے ہیں۔ اُن کے سامنے نقشہ کھلا ہوتا ہے اور یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ کون سا ملک ICC کا رکن ہے اور کون سا نہیں۔ یورپ کے کئی بڑے ممالک جہاں وہ پہلے با آسانی جاتے تھے، اب اُن کے لیے "خطرے کا زون” بن گئے ہیں۔ ایسے میں وہ یا تو لمبا راستہ اختیار کرتے ہیں یا پھر ایسے ممالک کا رخ کرتے ہیں جہاں گرفتاری کا امکان نہ ہونے کے برابر ہو۔

دوست ممالک کا سہارا

نیتن یاہو کی خارجہ پالیسی میں بھی نمایاں تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اب اُن کی توجہ اُن ریاستوں کی طرف زیادہ ہے جو ICC کو خاطر میں نہیں لاتیں یا پھر کھلے عام اس کے احکامات کو رد کر چکی ہیں۔ ایسے دوست ممالک اُن کے لیے ایک طرح کا "سیف زون” ہیں، جہاں وہ نسبتاً سکون سے جا سکتے ہیں۔

عدالتوں میں وقت خریدنا

اندرونِ ملک بھی نیتن یاہو اور اُن کی قانونی ٹیم ایک اور جنگ لڑ رہے ہیں۔ مقدمات کو طول دینے کے لیے مختلف اپیلیں دائر کی جاتی ہیں تاکہ ہر سماعت کے بعد اگلی تاریخ مل جائے اور گرفتاری کا خطرہ کچھ عرصے کے لیے مؤخر ہو جائے۔ یہاں تک کہ کبھی خفیہ ڈیل کی خبریں بھی آتی ہیں، جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ وہ ہر ممکن راستہ آزمانے کے لیے تیار ہیں۔

سیاسی طاقت کا استعمال

نیتن یاہو نے اپنی سیاسی طاقت کا سہارا لیتے ہوئے عدالتی نظام میں اصلاحات کی بھی کوشش کی۔ اُن کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اصلاحات دراصل اپنی قانونی مشکلات کو کمزور کرنے کا ہتھکنڈا تھیں۔ اگرچہ عوامی احتجاج نے اُن منصوبوں کو ہلا کر رکھ دیا، لیکن اس سے یہ ضرور واضح ہوتا ہے کہ وہ اپنی گرفتاری کے خطرے کو کم کرنے کے لیے سیاست کو بھی ایک ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

دنیا سے مکالمہ یا مزاحمت؟

بین الاقوامی سطح پر بھی نیتن یاہو نے اپنا مؤقف دو ٹوک انداز میں رکھا ہے۔ اُنہوں نے ICC کے فیصلوں کو یکسر مسترد کر دیا اور اپنے بڑے اتحادیوں کو اس عدالت کے خلاف صف آراء کرنے کی کوشش کی۔ امریکہ اور کچھ دیگر ممالک کی حمایت سے وہ وقتی طور پر مضبوط نظر آتے ہیں، مگر عالمی برادری کے ایک بڑے حصے میں اُن کے خلاف مزاحمت بڑھتی جا رہی ہے۔

نتیجہ

بنیامین نیتن یاہو کی موجودہ زندگی ایک ایسی فلم کی کہانی لگتی ہے جس میں مرکزی کردار طاقتور بھی ہے اور کمزور بھی۔ وہ ہر روز نئی حکمتِ عملی بناتے ہیں، سفر کے راستے بدلتے ہیں، عدالتوں میں تاخیر کرواتے ہیں اور عالمی سیاست کو اپنی ڈھال بناتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ گرفتاری کا سایہ اُن کا پیچھا نہیں چھوڑ رہا۔ آج نہیں تو کل، یہ سوال اُن کے سامنے پھر آ کھڑا ہوگا کہ آیا یہ سب جتن اُنہیں ہمیشہ بچا پائیں گے یا نہیں۔

اوپر تک سکرول کریں۔