خیبر پختونخوا کے عوام کا افغان طالبان "امارت اسلامی” سے صوبائی سطح پر مذاکرات کی مذمت، سنو پختونخوا کے پروگرام مختلف اضلاع سے گفتگو کرتے ہوئے سامعین نے وزیر اعلیٰ کے بیان کو مضحکہ خیز قرار دیا۔
تفصیلات کے مطابق ملک میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ کے افغانستان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے بیان کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے، سنو پختونخواہ ریڈیو پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بنوں سے ایک کالر نے کہا کہ یہ حق وفاقی حکومت کو حاصل ہے، اگر انہیں بائی پاس کیا جائے گا تو ایسے مذاکرات کی کوئی اخلاقی اور قانونی حیثیت نہیں ہوگی، وزیراعلیٰ کے بیان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ صوبہ اس ملک کا صوبہ نہیں بلکہ الگ ریاست یا الگ ملک ہے۔
کالر کا کہنا تھا کہ اگر آپ (صوبائی حکومت) وفاق کو نظرانداز کریں گے یا نہیں مانتے تو یہ مسئلے کا حل تو نہیں۔
پروگرام میں سوات سےایک اور کالر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ علی امین گنڈاپور صاحب کہتے ہیں کہ وہ طالبان سے مذاکرات کریں گے، یہ ایک افسوسناک اور گمراہ کن بیان ہے بالخصوص ان کیلئے جو جنگ زدہ علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں، اگر ہم سوات کی بات کریں تو سوات کے عوام نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مالی و جانی قربانیاں دی ہیں، تو یہ ہم سب کیلئے ایک افسوسناک امر ہے۔
کالر نے کہا کہ گمراہ کن بیان اس طرح ہے کہ ایک وزیراعلیٰ کو یہ نہیں پتہ کہ یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے، اس سے پہلے بھی پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے اس طرح کے بیانات سامنے آئے ہیں، اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ عمران خان صاحب کیلئے سب کچھ کررہے ہیں۔
سوات سے پروگرام میں شریک کالر نے کہا کہ عمران خان نے پشاور میں طالبان کیلئے دفاتر کا مطالبہ کیا تھا،اور ان پر یہ لیبل بھی ہے کہ یہ طالبان خان ہے اوراس سے یہ بات بھی عیاں ہوتی ہے کہ انکی سوچ سیاسی نہیں بلکہ یہ ایک دہشت گردانہ اور انتہا پسندانہ سوچ ہے، اور یہ ایک قابل مذمت بیان ہے۔