Nigah

حزب اللہ کے پھٹنے والے پیجر کہاں تیار ہوئے؟ موساد نے ان میں منی بم کیسے نصب کیئے؟ تہلکہ خیز انکشافات

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp

لبنان کی مزاحمتی تنظیم حزب اللہ کے زیر استعمال پیجرز میں دھماکوں سے 9 افراد ہلاک ہوئے، زخمی ہونے والوں کی تعداد 4 ہزار تک بڑھ گئی ہے، جن میں سے 300 کے قریب شدید زخمی ہیں ان کی آنکھوں، چہرے، سینے یا جسم کے دیگر نازک حصوں پر زخم آئے ہیں۔

مختلف انٹیلیجنس ذرائع نے عالمی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ تائیوانی برانڈ کے یہ پیجرز نیٹو کے رکن ملک ہنگری کی ایک فیکٹری نے تیار کیئے جس نے یہ پیجرز تیار کرنے کا لائسنس تائیوان کی کمپنی سے حاصل کر رکھا ہے، اس لیئے یہ کہا جا رہا ہے کہ ان پیجرز کا سافٹ ویئر ہیک کرنے میں تائیوان یا ہنگری سے بنیادی تعاون کیا گیا ہو گا، یہ بھی ممکن ہے کہ یہ سب اداروں کی سطح پر خفیہ مدد کے طور پر کیا گیا ہو یا موساد نے ان کے سائنس دانوں اور انجینیئرز کو خرید کر متعلقہ سافٹ ویئرز تک رسائی حاصل کی ہو، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس بڑے آپریشن کے دوران موساد نے ہنگری سے لبنان آنے والی ہزاروں پیجرز کی اس شپمنٹ تک رسائی حاصل کی ہو گی اور کسی پورٹ پر سے پیجرز والی شپمنٹ کو کچھ دنوں کیلئے کسی فیکٹری میں شفٹ کیا گیا ہوگا اور کسی پرزے کی شکل کا 10 سے 20 گرام انتہائی ہائی ایکسپلوسو دھماکہ خیز مواد ان میں نصب کیا گیا ہوگا، جس کے پھٹنے سے اتنے بڑے پیمانے پر لوگ زخمی ہوئے، انٹیلیجنس ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صرف سافٹ ویئر کو ہیک کرنے کا واقعہ نہیں بلکہ سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر دونوں تک رسائی حاصل کی گئی، اس لیئے یہ آپریشن انٹیلیجنس کی دنیا کے بڑے کارناموں میں شامل کیا جائے گا، اس سے قبل بھی موساد کی طرف سے حزب اللہ کے اہم کمانڈرز کو اسرائیلی فضائیہ اور ڈرون طیاروں کے ذریعے پن پوائنٹ حملوں میں ہلاک کرنے اور ایران میں حماس چیف اسماعیل ہانیہ کے قتل سمیت غیر معمولی آپریشنز کیئے گئے جنہیں انٹیلیجنس ورلڈ کا حیران کن آپریشنز قرار دیا جا رہا ہے۔

امریکہ، برطانیہ سمیت یورپی ممالک کے مختلف میڈیا اداروں کی رپورٹس کے مطابق لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ گروہ حزب اللہ کے زیرِ استعمال کئی پیجرز پھٹنے سے ایران کے سفیر بھی زخمی ہوئے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایران حزبِ اللہ نیٹ ورک کے ساتھ آن گراؤنڈ کی سطح تک منسلک ہے۔

حزب اللہ کا کہنا ہے کہ یہ پیجرز حزب اللہ کے متعدد اراکین کے استعمال میں تھے اور ان کے پھٹنے سے اس کے دو جنگجو ہلاک ہوئے ہیں۔ اس نے اسرائیل پر ’مجرمانہ جارحیت‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے انتقامی کارروائی کا عندیہ دیا ہے۔

لبنان کے وزیراعظم نجيب ميقاتی نے ان دھماکوں کا الزام اسرائیل پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ یہ ’لبنان کی سلامتی کی سنگین خلاف ورزی ہے‘۔

دوسری طرف امریکہ نے اس واقعے سے لاتعلقی ظاہر کی ہے جبکہ تاحال اسرائیل نے ان الزامات پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔

تائیوان کی یہ پیجر تیار کرنے والی کمپنی ’گولڈ اپولو‘ نے کہا ہے کہ لبنان میں استعمال ہونے والے پیجر ان کی کمپنی نے تیار نہیں کیے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق کمپنی کے بانی سو چنگ کوانگ نے تائیوان کے شہر نیو تپائی میں کمپنی کے دفتر میں صحافیوں کو بتایا کہ یہ پیجر یورپ کی بی اے سی (BAC) نامی ایک کمپنی نے تیار کیے ہیں جس کے پاس ’گولڈ اپولو‘ کا برانڈ استعمال کرنے کا لائسنس موجود ہے۔

کمپنی کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ AR-924 ماڈل کے پیجر بی اے سی (BAC) نے تیار اور فروخت کیے تھے۔

’گولڈ اپولو‘ کے مطابق بی اے سی (BAC) کمپنی یورہی ملک ہنگری کے شہر بوداپسٹ میں واقع ہے۔

پیجر ایک چھوٹی وائر لیس ڈیوائس کو کہتے ہیں جس کا استعمال موبائل فون سے قبل بہت عام تھا۔ پیجر ڈیوائس کے ذریعے آپ چھوٹے ٹیکسٹ میسج بھیج سکتے ہیں اور وصول کر سکتے ہیں۔ ان کے ذریعے الرٹ بھی بھیجے جاتے ہیں۔

پیجر بذریعہ وائر لیس نیٹ ورک سگنل بھیجتا ہے۔ اسے اکثر ہسپتال اور سکیورٹی کمپنیاں استعمال کیا کرتی تھیں۔

حزب اللہ کے مطابق منگل کی شام قریب ساڑھے تین بجے لبنان کے مختلف علاقوں میں پیجرز پھٹنے سے دھماکے شروع ہوگئے۔ یہ غیر واضح ہے کہ اب تک کتنے پیجرز پھٹے ہیں۔ لیکن غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق پہلے یہ دعویٰ کیا گیا کہ پیجرز پھٹنے سے پونے تین ہزار لوگ زخمی ہوئے اب یہ تعداد 4 ہزار بتائی جا رہی ہے۔

لبنان میں ایک سپر مارکیٹ کی سی سی ٹی وی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک شخص کے بیگ میں موجود پیجر میں دھماکہ ہوا۔ یہ شخص زمین پر گِرتا ہے اور درد سے چلاتا ہے جبکہ آس پاس کے لوگ جان بچانے کے لیے بھاگتے ہیں۔

وزیر صحت کے مطابق اکثر لوگوں کو چہرے، ہاتھ یا پیٹ پر چوٹیں آئی ہیں۔ حزب اللہ نے تاحال یہ نہیں بتایا کہ اس کے خیال میں ان پیجرز سے دھماکے کیسے ہوئے ہیں۔

حزب اللہ مواصلات کے لیے انہی پیجرز پر انحصار کرتا ہے۔ گروہ نے اپنے ارکان کو موبائل فونز استعمال کرنے سے روکا تھا کیونکہ اسے اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی جانب سے موبائل فون ہیکنگ کا خدشہ تھا۔

حزب اللہ نے رواں سال کے آغاز میں موبائل فونز کی بجائے پیجرز استعمال کرنا شروع کیے۔ اسے خدشہ تھا کہ موبائل فونز کی ٹریکنگ کے ذریعے اسرائیل اس کے کمانڈروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ہلاک کر رہا ہے۔

کئی مبصرین کا خیال ہے کہ اس حملے سے قبل لبنان میں ایسے پیجرز بھیجے گئے تھے جنھیں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا تھا۔ امکان ہے کہ یہ لبنان میں پیجرز کی ایک نئی کھیپ کا نتیجہ ہے جو حال ہی میں منگوائی گئی تھی۔

لبنان کی ایک یونیورسٹی کی پروفیسر جنان الخوری کہتی ہیں کہ ’یہ نئی شپمنٹ تھی۔ اس نئی شپمنٹ کو لبنان آنے کی اجازت کس نے دی اور اسے حزب اللہ کے ارکان میں کیوں تقسیم کیا گیا؟ اس کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہے۔

برطانوی فوج کے سابق اہلکار اور ہتھیاروں کے ماہر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ممکنہ طور پر پیجرز میں 10 سے 20 گرام فوجی گریڈ کا دھماکہ خیز مواد تھا۔ ان کے مطابق دھماکہ خیز مواد کو ایک جعلی الیکٹرونک پرزے کے اندر چھپایا گیا ہوگا۔

ان کا خیال ہے کہ ان پیجرز کو ایک سگنل (جسے ایلفا نیومیرک ٹیکسٹ میسج کہتے ہیں) کے ذریعے فعال کیا گیا جس کے بعد اسے استعمال کرنے پر ان میں دھماکے ہوئے۔

برطانیہ میں قائم تھنک ٹینک چیتھم ہاؤس میں مشرق وسطیٰ کی ماہر لینا خطاب نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اسرائیل کئی مہینوں سے حزب اللہ کے خلاف سائبر آپریشن کر رہا ہے۔ لیکن یہ سکیورٹی میں سب سے بڑی مداخلت ہے‘۔ یہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے کہ جب اسرائیل میں حکومت پر عوامی دباؤ بڑھ رہا ہے کہ لبنان کے ساتھ شمالی سرحد کو محفوظ بنایا جائے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’حزب اللہ کسی فوجی کارروائی کو برداشت کر سکتا تھا لیکن اس حملے کا مقصد حزب اللہ کو مفلوج کرنا ہے اور اسرائیل کے خلاف کارروائی میں اس کے آپشنز محدود کرنا ہے‘۔

بی بی سی نے لکھا ہے کہ اس سے ملتے جلتے حملوں کی تاریخ موجود ہے جیسے 1996 میں اسرائیلی سکیورٹی ایجنسی شاباک نے حماس کے لیے بم بنانے والے ایک حملہ آور کے فون میں دھماکہ خیز مواد نصب کر کے انھیں ہلاک کیا گیا۔

مشرق وسطیٰ میں سی آئی اے کی ایک سابق تجزیہ کار ایمیلی ہارڈنگ نے حالیہ واقعے کو ’سپلائی چین کا حملہ‘ قرار دیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’شاید حزب اللہ نے اپنے پیجرز تبدیل کیے اور نئے پیجر استعمال کرنا شروع کیے۔ کسی مخصوص سگنل کے ذریعے انھیں ایکٹو کیا گیا۔‘ وہ کہتی ہیں کہ اس کی وضاحت اسی صورت ممکن ہے کہ اگر متاثرین، دھماکوں کی جگہ، وقت اور دیگر معاملات کو سمجھا جائے۔

بی بی سی کے نامہ نگار برائے سائبر امور جو ٹائیڈی کہتے ہیں کہ سائبر سکیورٹی کی دنیا میں سپلائی چین کے حملے بڑھتی تشویش کا باعث بنے ہیں۔ حال ہی میں ہیکرز نے مینوفیکچرنگ کے دوران پروڈکٹس تک رسائی حاصل کی ہے جس سے ہائی پروفائل واقعات رونما ہوئے۔ تاہم ان حملوں میں اکثر سافٹ ویئر تک محدود رہا جاتا ہے۔ ہارڈ ویئر کی مدد سے کیے جانے والے سپلائی چین حملے بہت غیر معمولی ہیں اور ان کے لیے ضروری ہے کہ آپ ڈیوائس تک رسائی حاصل کریں۔

جو ٹائیڈی کے مطابق ’اگر یہ سپلائی چین حملہ تھا تو اس کے لیے بڑا آپریشن کیا گیا ہوگا۔ کسی فیکٹری میں پیجرز کو کھولا گیا ہوگا اور ان میں تبدیلی کی گئی ہوگی‘۔

سکیورٹی ماہر دمتری الپرووچ نے اس واقعے کو ’تاریخ کا سب سے بڑا سپلائی چین حملہ‘ قرار دیا ہے۔ موساد پر ایک کتاب کے مصنف یوسی میلمن کے مطابق ان دھماکوں سے تاثر ملتا ہے کہ یہ ’موساد کا آپریشن تھا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ کسی نے حال ہی میں ان پیجرز میں دھماکہ خیز مواد یا وائرس نصب کیا جو کہ نہ صرف حزب اللہ کے سینیئر کمانڈر بلکہ دیگر ارکان بھی اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ یوسی میلن کا کہنا تھا کہ ’موساد کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ بار بار حزب اللہ تک پہنچ سکتی ہے‘۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ ان دھماکوں سے اسٹریٹیجک سطح پر کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔

مصر کے سکیورٹی ماہر میجر جنرل محمد نور نے اسے ایک ’اختراعی سائبر واقعہ‘ قرار دیا اور یہ رائے دی کہ وائر لیس ڈیوائسز کو کبھی بھی محفوظ نہیں سمجھا جاسکتا۔ وہ کہتے ہیں کہ مصری وزارت داخلہ میں یہ سخت ہدایات تھیں کہ دہشتگردی یا فرقہ وارانہ واقعے کی اطلاع کے لیے ہمیشہ لینڈ لائن استعمال کی جائے۔

اہم ترین

Scroll to Top