Nigah

موبائل فون، واکی ٹاکی اور پیجرز کے ذریعے جاسوسی اور دہشتگردی، موساد نے اپنی الیکٹرانکس فیکٹریاں لگا رکھی ہیں، تہلکہ خیز انکشافات

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp

لبنان میں پھٹنے والے پیجرز، واکی ٹاکی، لیپ ٹاپ اور موبائل فون اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسی موساد کی قائم کی ہوئی مختلف الیکٹرانکس مینو فیکچرنگ کمپنیوں میں تیار کیئے گئے، اور دنیا بھر میں جاسوسی اور دہشتگردی کے اس بڑے آپریشن کیلئے بہت بڑے پیمانے پر کمیونیکیشن الات تیار کر کے مارکیٹ میں سپلائی کرنے کیلئے موساد نے اپنی فیکٹریاں لگا رکھی ہیں، اس حوالے سے یہ انکشافات سامنے آئے ہیں کہ موساد نے تائیوان، جنوبی کوریا، چین اور جاپان کی مختلف کمپنیوں کی مصنوعات کی نقل تیار کرنے والے مختلف صنعتی یونٹ اسرائیل اور مشرقی یورپ کے ممالک میں قائم کر رکھے ہیں اور ان میں تیار کردہ موبائل فونز، واکی ٹاکی، پیجرز، لیپ ٹاپ اور دوسرے الیکٹرانک آلات مختلف ٹارگٹ ممالک میں فرنٹ کمپنیوں کے ذریعے سپلائی کیئے جاتے ہیں جن کا بظاہر اسرائیل سے تعلق ہونے کا کوئی شک تک نہیں ہوتا، ان میں سے کچھ آلات بطور بوبی ٹریپ استعمال کیئے جاتے ہیں جیسا کہ لبنان میں کیا گیا، جبکہ کچھ آلات جاسوسی مقاصد کیلئے استعمال ہوتے ہیں اور ان پر کی گئی گفتگو اور میسجز ان آلات کی مینوفیکچرنگ کمپنیوں میں بھی رسیو ہوتے ہیں، ذرائع کا دعویٰ ہے کہ حزب اللہ، حماس اور ایرانی فوجی افسروں و اہلکاروں اور بڑے جنگجو لیڈروں کی ٹارگٹ کلنگ میں ان ڈیوائسز نے اہم کردار ادا کیا۔

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ لبنان میں حزب اللہ ارکان کے زیر استعمال دھماکے سے تباہ ہونے والے ہزاروں پیجر اسرائیلی فرنٹ کمپنی بی اے سی کنسلٹنگ نے فراہم کیے تھے، اور یہ پیجر تیار کرنے والے انجینئرز بھی اسرائیلی انٹیلی جنس کے افسر تھے، نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہےکہ ہنگری میں موجود ‘مشکوک’ کمپنی بی اے سی دراصل ایک اسرائیلی فرنٹ کمپنی ہے۔ اسرائیلی انٹیلی جنس افسران نے پیجر کمپنی سے تعلق چھپانے کے لیے فرنٹ کمپنیوں کا استعمال کیا۔ آپریشن سے آگاہ تین اسرائیلی انٹیلی جنس افسران نے امریکی اخبار کو بتایا کہ پیجر کے مینوفیکچررز کے اسرائیل سے تعلق کو چھپانے کے لیے کم از کم دو اور شیل کمپنیاں بنائی گئیں۔

رپورٹ کے مطابق پیجر کی ترسیل لبنان میں 2022 میں شروع ہوئی تھی تاہم حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ کی جانب سے موبائل فون کو غیر محفوظ قرار دینے کے بعد سپلائی میں اضافہ کیا گیا اور ہزاروں پیجر حزب اللہ کے ارکان اور ان کے اتحادیوں میں تقسیم کیے گئے۔

اخبار کے مطابق اسے اسرائیلی انٹیلی جنس کے 12 موجودہ اور سابقہ انٹیلی جنس افسران نے بتایا کہ اس حملے کے پیچھے اسرائیل تھا۔ ان افسران کو حملے سے قبل بریف کیا گیا تھا۔

لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ گروہ حزب اللہ کے خلاف پہلے پیجر اور پھر واکی ٹاکی حملوں میں اب تک 37 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

لبنان کی وزارت صحت کے مطابق بدھ کے روز واکی ٹاکی پھٹنے کے تازہ حملوں میں 20 افراد ہلاک جبکہ 450 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔

اس سے قبل منگل کے روز ہونے والے پیجر دھماکوں میں حزب اللہ کے زیرِ استعمال کئی پیجرز پھٹنے سے دو بچوں سمیت 17 افراد ہلاک اور 2800 زخمی ہوئے، زخمیوں میں ایران کے سفیر بھی شامل ہیں۔ حزب اللہ ان حملوں کا الزام اسرائیل پر عائد کرتا ہے تاہم اسرائیل کی جانب سے اس بارے میں ابھی تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔

دوسری طرف برطانوی نشریاتی ادارے نے دعویٰ کیا ہے کہ لبنان میں متواتر دوسرے دن کمیونکیشنز ذرائع کو تباہ کن ہتھیار بنانے کے اسرائیلی آپریشن میں جو واکی ٹاکیز دھماکوں سے اڑانے کیلئے استعمال کیے گئے، وہ جاپان کی کمپنی کے بنائے گئے لگتے ہیں۔

روئٹرز کے مطابق بیروت میں پھٹنے والی واکی ٹاکیز کی تصاویر پر جو لیبل دیکھنے کو ملے ہیں وہ جاپان کی ریڈیو کمیونیکیشنز اینڈ ٹیلی فون کمپنی ICOM (6208.T) کے نام والے ہیں، اپنے نئے کھلتے ٹیب کے ساتھ یہ واکی ٹاکی جاپانی فرم کے ماڈل IC-V82 ڈیوائس سے مشابہت رکھتا ہے، ٹوکیو اسٹاک ایکسچینج میں درج ICOM نے جمعرات کو کہا کہ وہ ان خبروں کی تحقیقات کر رہا ہے کہ اس کے لوگو والے ریڈیو ڈیوائسز لبنان میں پھٹے ہیں، اور تازہ ترین معلومات ویب سائٹ پر جاری کیے جائیں گے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ اپنے تمام ریڈیوز جاپان کے اندر ہی تیار کرتی ہے، اس نے اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ آیا اس نے ڈیوائس باہر بھیجے ہیں یا نہیں، کیوں کہ یہ والا ماڈل 10 سال پہلے بند کر دیا گیا تھا۔

اوساکا میں قائم فرم نے کہا کہ بیرون ملک منڈیوں کے لیے اس کی مصنوعات خصوصی طور پر مجاز تقسیم کاروں کے ذریعے فروخت کی جاتی ہیں، اور برآمدات کی جانچ جاپان کے سیکیورٹی تجارتی کنٹرول کے ضوابط کے مطابق کی جاتی ہے، واضح رہے کہ مارکیٹ میں اس سے قبل اس کمپنی کی ڈیوائسز کی نقلیں فروخت ہونے لگی تھیں، جس پر کمپنی نے صارفین کو جعلی ورژن سے متعلق خبردار کر دیا تھا، بالخصوص ان ماڈلوں سے متعلق جو اس نے بنانا بند کر دی تھیں۔ ایک سیکورٹی ذریعے نے بتایا کہ ہاتھوں میں پکڑے جانے والے ریڈیوز کو حزب اللہ نے پانچ ماہ قبل خریدا تھا، لگ بھگ ان ہی دنوں میں جن دنوں میں اس نے پیجرز خریدے تھے۔

اہم ترین

Scroll to Top