انتہا پسند ہندو تنظیم آر ایس ایس کے بطن سے جنم لینے والے بھارتیہ جنتا پارٹی کے 75 سالہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی پوری سیاسی زندگی بھارتی قانون سے کھلواڑ کرنے، اداروں کو کچلنے، ذاتی اقتدار کو مضبوط کرنے، اقلیتوں پر مظالم ڈھانے اور انسانی حقوق کی پامالیوں کی تاریخ پر محیط ہے اور وہ بھارت جو کبھی گلوبل ساؤتھ کا لیڈر ہوا کرتا تھا آج اقلیتوں کا جابر سمجھا جاتا ہے۔
نریندر مودی کی یہ مختصراً سیاسی تمہید بیان اس لئے کرنا پڑ رہی ہے کہ نریندر مودی کی 75 ویں سالگرہ پر بھارتی میڈیا نے انہیں ناقابلِ متبادل رہنما کے طور پر پیش کیا ہے۔ نریندر مودی کی گودی میڈیا اس پروپیگنڈے میں لگی ہوئی ہے کہ بھارت کو مودی کی ضرورت ہے اور اس کی بڑے پیمانے پر تشہیر کرکے جشن کا سماں باندھ دیا گیا ہے مگر یہ منظم پروپیگنڈہ اور جشن ایک تلخ حقیقت لئے ہوئے ہے جو بھارتی عوام کو ہی نہیں پوری دنیا کو یہ باور کرا چکی ہے کہ مودی جمہوریت کے محافظ نہیں بلکہ اس کے سب سے بڑے بدترین دشمن ہیں۔
قارئین محترم ا
انتہا پسند جماعت بی جے پی کے خود ساختہ رہنما مودی کے عروج کو سمجھے بغیر ان کے خونی ماضی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
2002 کے گجرات قتلِ عام میں انہوں نے وہ بدنام زمانہ لقب پایا جسے دنیا گجراتی قصائی کے نام سے جانتی ہے۔ اس قتلِ عام میں 2000 سے زائد افراد کو سر عام قتل کیا گیا جن میں زیادہ تر مسلمانوں کو ٹارگٹ کرکے مارا گیا۔ اس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے اور پوری برادریاں گھیٹوز میں تبدیل کر دی گئیں۔
اس وقت کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کے خلاف امریکا، برطانیہ سمیت کئی یورپی ممالک نے داخلے پر پابندی لگا دی جو کئی برس تک برقرار رہی۔ مگر جوابدہی کے بجائے مودی نے اسی خوں ریزی کو سیاسی زینہ بنایا اور آر ایس ایس و بی جے پی کے لئے ہندوتوا کے بت بن گئے۔ یہی خون آلود سیاست انہیں دہلی کے تخت تک لے گئی۔
قارئین محترم ا
یہاں عجیب منطق یہ ہے کہ آر ایس ایس نے ہمیشہ ایک اصول اپنایا کہ پارٹی کا جو رہنما بھی 75 سال کی عمر کو پہنچے گا تو وہ جماعت سے ریٹائر ہو جائے گا۔ اسی لئے ایل کے ایڈوانی اور مرلی منوہر جوشی پر یہ اصول لاگو ہوا۔ مگر مودی نے 75 سال کی عمر پر پہنچ کر اس قائدے کو بلڈوز کر دیا اور خود کو بھارت کے لئے ناگزیر قرار دیتے ہوئے ریٹائر ہونے سے انکار کر دیا۔
یہ منافقت ظاہر کرتی ہے کہ ادارے، نظریہ اور پارٹی کا نظم و ضبط ایک شخص کی شخصیت پرستی کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئے ہیں۔ مودی کی پوری سیاسی زندگی قانون توڑنے، اداروں کو کچلنے اور ذاتی اقتدار کو مضبوط کرنے کی تاریخ ہے۔
اقلیتوں پر مظالم اور انسانی حقوق کی پامالی نے بھارت کا چہرہ مسخ کر ڈالا ہے۔ مسلمانوں کو گاؤ رکشا کے نام پر لنچ کیا گیا۔ عیسائیوں پر چرچوں اور اسکولوں میں حملے ہوئے۔ دلتوں کو ذلیل اور انصاف سے محروم رکھا گیا۔ اوپر سے سی اے اے اور این آر سی نے مذہبی امتیاز کو قانون کا حصہ بنا دیا۔ بلڈوزر پالیسی سے مسلمانوں کے گھروں کو بغیر مقدمے کے گرایا گیا۔
بھارت کی بنیاد کثرت میں وحدت تھی، وہ بنیاد ٹوٹ چکی ہے۔ نریندر مودی نے آرٹیکل 370 منسوخ کر کے کشمیر کی خودمختاری چھین کر پوری وادی کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر دیا ہے۔
صحافیوں، کارکنوں اور سیاستدانوں کو بغیر مقدمے کے قید کیا گیا۔ انٹرنیٹ شٹ ڈاؤنز نے تعلیم اور روزگار کو مفلوج کر کے رکھا۔ جمہوریت کا وعدہ قبضے اور جبر میں بدل دیا گیا۔ اپوزیشن کو کچلا گیا اور میڈیا کو خاموش کرنے کے لئے ای ڈی، سی بی آئی اور یو اے پی اے کا استعمال کیا گیا۔
فریڈم ہاؤس نے بھارت کو جزوی آزاد قرار دیا اور پریس فریڈم انڈیکس میں بھارت دنیا کے نچلے ترین ممالک میں ہے۔
آج بھارت میں قانون کی نہیں بلکہ خوف کی حکمرانی ہے۔ معاشی اعتبار سے بھارت کی حالت دگرگوں ہے۔ بیروزگاری 45 سال کی بلند ترین سطح پر ہے، کسان قرضوں میں ڈوبے ہوئے ہیں اور ہزاروں کسان خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔
نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے چھوٹے کاروبار تباہ کر دیے۔ بھارت عالمی بھوک انڈیکس میں 111 ویں نمبر پر آگیا ہے۔ دوسری طرف کرونی کیپٹلزم عروج پر ہے، اڈانی اور امبانی امیر تر ہو چکے ہیں جبکہ عوام بھوک اور افلاس میں ہیں۔
مودی نے ناکام سفارتکاری کے ذریعے بھارت جیسے بڑے ملک کو اقوامِ عالم میں تنہا کر دیا ہے۔ وی ڈیم انسٹیٹیوٹ نے بھارت کو انتخابی آمریت کا موجب قرار دیا۔
بھارت جو کبھی گلوبل ساؤتھ کا لیڈر تھا آج اقلیتوں کا جابر سمجھا جاتا ہے۔ عدالتیں پامال ہو چکی ہیں۔ پارلیمنٹ ربڑ اسٹامپ بن چکی ہے۔ درجنوں اپوزیشن ایم پی معطل ہیں۔ عدلیہ ایگزیکٹو کے دباؤ میں جھک رہی ہے۔
اقوامِ متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ بار بار بھارت پر تنقید کر رہے ہیں۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ سب سے بڑی جمہوریت کی عالمی شبیہ زمین بوس ہو رہی ہے۔
مودی کے 75 سالوں کا نچوڑ ہی قانون اور بھارت توڑنے کے سوا کچھ نہیں۔ گجراتی قصائی سے وزیراعظم تک مودی نے ہمیشہ اقلیتوں کے استحصال، جمہوریت کے زوال اور آمریت کے فروغ پر سیاست کی ہے۔
حرف آخر یہ کہ انتہا پسند مودی بھارت کے مستقبل کے محافظ نہیں بلکہ بھارت کی بقا کے لئے سب سے بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔ اگر بھارت نے کثیر الثقافتی، جمہوری اور آئینی جمہوریہ کے طور پر زندہ رہنا ہے تو بھارتی عوام کو اس انتہا پسند کو اقتدار سے ہٹانا ہوگا۔
مودی اور بھارت ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
مصنف ایک معزز میڈیا پیشہ ور ہیں جو نیشنل نیوز چینل ایچ ڈی کے چیف ایگزیکٹو اور "دی فرنٹیئر انٹرپشن رپورٹ" کے ایگزیکٹو ایڈیٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ان سے پر رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔
View all posts