بھارت ایک ایسا ملک تھا جو کبھی اپنی مذہبی، لسانی اور ثقافتی تنوع پر فخر کرتا تھا۔ آزادی کے بعد اس کے آئین نے اسے ایک سیکولر ریاست کے طور پر شناخت دی جہاں ہر مذہب اور برادری کو برابر حقوق حاصل تھے۔ مگر آج 100 سال بعد وہی بھارت ایک خطرناک نظریاتی موڑ پر کھڑا ہے۔ راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) جو برطانوی راج کے زمانے میں بنی تھی، اب کھل کر اپنے اصل ایجنڈے ہندو راشٹر کی تکمیل کے قریب پہنچ چکی ہے۔ آر ایس ایس کے موجودہ سربراہ منموہن بھاگووت نے تنظیم کی سوویں سالگرہ پر اپنی تقریر میں بھارت کو باقاعدہ ہندو راشٹر قرار دینے کا اعلان کر کے اس خطرناک سوچ کو عملی شکل دے دی ہے۔
منموہن بھاگووت کے الفاظ کہ بھارت ہندو مذہب کا ملک ہے محض ایک بیان نہیں بلکہ ایک نظریاتی اعلان ہے۔ یہ بیان بھارت کے سیکولر آئین، گاندھی کے فلسفے اور نہرو کے جمہوری ویژن کی کھلی تردید ہے۔ آر ایس ایس ہمیشہ سے یہ موقف رکھتی ہے کہ بھارت کا تشخص صرف ہندو مذہب سے وابستہ ہونا چاہیے۔ اس کے مطابق مسلمان، عیسائی، سکھ اور دیگر اقلیتیں اس زمین پر صرف مہمان ہیں جنہیں ہندو تہذیب کے زیر اثر رہنا چاہیے۔
یہی نظریہ اب تعلیمی نصاب، میڈیا بیانیے، عدالتی فیصلوں اور حکومتی پالیسیوں میں سرایت کر چکا ہے۔ اسکولوں میں ہندو تہذیب کو مرکزی حیثیت دی جا رہی ہے، مغل تاریخ کو حذف کیا جا رہا ہے اور وشوا گرو یعنی عالمی رہنما بننے کا خواب دراصل ہندو بالادستی کے احیاء کی علامت ہے۔
نریندر مودی اور بی جے پی حکومت نے آر ایس ایس کے اس نظریے کو محض قبول نہیں کیا بلکہ اسے ریاستی پالیسی کا حصہ بنا دیا ہے۔ مودی خود آر ایس ایس کے تربیت یافتہ رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کی حکومت میں آر ایس ایس کا غلبہ غیر معمولی حد تک بڑھ چکا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی میں بھارت نے مذہبی آزادی کے عالمی انڈیکس میں بدترین زوال دیکھا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف جہاد اور گاؤ رکشا کے نام پر ہونے والی ہلاکتیں معمول بن چکی ہیں۔ عیسائی مشنریوں پر زبردستی مذہب تبدیل کرانے کے جھوٹے مقدمے قائم کیے جا رہے ہیں۔ سکھ برادری کے خلاف علیحدگی پسندی کے الزامات لگا کر انہیں قومی سلامتی کے دشمن قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ تمام اقدامات ایک مربوط پالیسی کا حصہ ہیں، جس کے تحت ہندو بالادستی کو قانونی جواز دیا جا رہا ہے۔
مذہب تبدیلی کے خلاف قوانین جو کئی بھارتی ریاستوں میں نافذ کیے جا چکے ہیں، اقلیتوں کی مذہبی آزادی کو براہ راست چیلنج کرتے ہیں۔ پولیس اور عدلیہ کی جانبداری نے انصاف کے دروازے بند کر دیے ہیں۔ جہاں مسلمان لڑکوں کو محض شک پر مار دیا جاتا ہے، وہیں حملہ آور ہندو گروہوں کو قوم پرست قرار دے کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس ریاستی رویے نے بھارت کے سماجی توازن کو برباد کر دیا ہے اور اقلیتوں کے دلوں میں خوف و بے یقینی کی فضا قائم کر دی ہے۔
آر ایس ایس کا خواب صرف مذہبی بالادستی تک محدود نہیں بلکہ وہ بھارت میں ایک ہندو شناخت مسلط کرنا چاہتی ہے۔ اس کے لیے اقلیتوں کو معاشی، تعلیمی اور سیاسی طور پر کمزور کیا جا رہا ہے۔ تعلیمی اداروں میں مسلم طلبہ کو نشانہ بنایا جاتا ہے، روزگار کے مواقعوں میں امتیازی رویہ عام ہو چکا ہے، اور میڈیا میں اقلیتوں کو ملک دشمن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
بی جے پی حکومت کے دوران مسلم اکثریتی علاقوں کو ترقیاتی منصوبوں سے محروم رکھا گیا۔ کشمیر میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے ذریعے مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازش کی گئی۔ نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) کے ذریعے لاکھوں مسلمانوں کی شہریت مشکوک بنائی گئی۔ یہ سب اقدامات اس ہدف کی تکمیل کی سمت بڑھتے قدم ہیں جس میں بھارت صرف ایک مذہب، ایک ثقافت اور ایک شناخت کا ملک بن جائے۔ اس نظریے کی سب سے خطرناک جہت یہ ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی دونوں اقلیتوں کے وجود کو تاریخی غلطی سمجھتی ہیں۔ ان کے نزدیک بھارت کی اصل شناخت صرف ہندو سناتن دھرم سے وابستہ ہے اور باقی سب مذاہب غیر ملکی یا دشمن نظریات کی علامت ہیں۔
اگر آر ایس ایس کا یہ منصوبہ اسی رفتار سے بڑھتا رہا تو آنے والے برسوں میں بھارت کا سیکولر اور جمہوری ڈھانچہ مکمل طور پر منہدم ہو جائے گا۔ آئینی ادارے پہلے ہی نظریاتی کنٹرول میں آ چکے ہیں۔ میڈیا حکومتی پروپیگنڈا مشین میں بدل چکا ہے اور عدلیہ کے فیصلے اکثریتی دباؤ کے زیر اثر ہیں۔ نتیجتاً بھارت ایک ایسی ریاست میں بدل رہا ہے جہاں اقلیتوں کے لیے کوئی محفوظ جگہ باقی نہیں رہی۔
یہ منظر نامہ صرف بھارت کے اندرونی استحکام کے لیے نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے امن کے لیے خطرہ ہے۔ ایک ایسا بھارت جو مذہبی بنیاد پر چلایا جائے، وہ اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن کی بجائے عقیدے پر مبنی دشمنی کو فروغ دے گا۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسے ممالک میں اس کے اثرات پہلے ہی محسوس کیے جا رہے ہیں، جہاں بھارتی میڈیا اور خفیہ ایجنسیاں ہندو شناخت کے بیانیے کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
یہ ایک ایسا راستہ ہے جو بالآخر بھارت کو اندرونی خانہ جنگی، معاشرتی انتشار اور عالمی تنہائی کی طرف لے جا سکتا ہے۔
پاکستان کے لیے یہ صورتحال محض ایک نظریاتی یا مذہبی بحث نہیں بلکہ ایک علاقائی سلامتی کا مسئلہ ہے۔ اسلام آباد نے ہمیشہ یہ موقف اختیار کیا ہے کہ بھارت کا سیکولر اور کثیر الثقافتی کردار جنوبی ایشیا کے امن کے لیے ضروری ہے۔ لیکن اگر آر ایس ایس کا ہندو راشٹر قائم ہو جاتا ہے تو اس کے اثرات سرحدوں سے بہت آگے تک پھیلیں گے۔ کشمیر کی صورتحال مزید سنگین ہوگی، اقلیتوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوگا اور خطہ مستقل کشیدگی کا شکار رہے گا۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ بھارت کا اندرونی فاشزم عالمی امن کے لیے خطرہ ہے۔ اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی برادری کو اس نظریاتی شدت پسندی کا نوٹس لینا چاہیے جو ایک ارب سے زائد لوگوں کے ملک کو مذہبی آمریت کی طرف دھکیل رہی ہے۔
بھارت کی تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ تنوع ہی اس کی طاقت ہے، لیکن آر ایس ایس کا نظریہ اس تنوع کو کچلنے پر تلا ہوا ہے۔ منموہن بھاگووت کا ہندو راشٹر دراصل بھارت کی جمہوریت کے جنازے کا اعلان ہے۔ ایک ایسا ملک جو گاندھی، نہرو، امبیڈکر اور عبدالکلام کا تھا، آج گولوالکر اور ساورکر کے نظریات میں الجھ کر اپنی روح کھو رہا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ بھارت کے باشعور شہری، عالمی برادری اور خطے کے امن پسند ممالک مل کر اس فاشسٹ بیانیے کا مقابلہ کریں۔ اگر آج آر ایس ایس کا خواب حقیقت بن گیا تو کل نہ صرف بھارت کی روح بلکہ پورے جنوبی ایشیا کا مستقبل تاریکی میں ڈوب جائے گا۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
ڈاکٹر عظیم گل نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز، اسلام آباد کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات میں فیکلٹی ہیں۔
View all posts