Nigah

آزاد جموں و کشمیر میں مقامی تحریکیں اور بیرونی ایجنڈے

آزاد جموں و کشمیر میں مقامی تحریکیں اور بیرونی ایجنڈے

آزاد جموں و کشمیر ہمیشہ سے پاکستان کے ساتھ تاریخی، دینی اور سیاسی وابستگی کا مرکز رہا ہے۔ تاہم حالیہ برسوں میں بعض نام نہاد مقامی تحریکیں جو بظاہر عوامی مسائل اٹھانے کا دعویٰ کرتی ہیں، دراصل ایک منصوبہ بند بیانیاتی جنگ کا حصہ بنتی جا رہی ہیں۔ ان تحریکوں کا مقصد صرف عوامی حقوق نہیں بلکہ ریاستی اداروں کو بدنام کرنا اور پاکستان کے اندرونی و بیرونی سطح پر استحکام کو متاثر کرنا ہے۔
یہ گروہ سوشل میڈیا، احتجاجی مہمات اور سیاسی نعروں کے ذریعے ایسا تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ عوام پاکستان سے نالاں ہیں، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔

پاکستان نے ہمیشہ کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی حمایت کی ہے۔ اقوام متحدہ کے فورمز پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے سے لے کر سفارتی محاذ تک پاکستان نے اپنی سفارتی اور اخلاقی ذمہ داریاں پوری کی ہیں۔
تاہم دشمن قوتوں نے اس یکجہتی کو سبوتاژ کرنے کی منظم کوششیں شروع کر دی ہیں۔ وہ پراکسی نیٹ ورکس کے ذریعے ایسے مقامی چہروں کو استعمال کر رہے ہیں، جو بظاہر عوامی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہیں مگر دراصل غیر ملکی مفادات کے ترجمان بن چکے ہیں۔

پاکستان کو ایک غیر مستحکم ملک
بھارت، اسرائیل اور بعض مغربی لابیز کشمیری خطے میں "بیانیاتی پراکسی وار” چلا رہی ہیں۔ ان کا ہدف پاکستان کو ایک غیر مستحکم ملک کے طور پر پیش کرنا اور کشمیر کے مسئلے کو اندرونی سیاسی بحران بنا کر دکھانا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حالیہ مقامی احتجاجی تحریکوں میں بعض نعرے، بینرز اور سوشل میڈیا ہیش ٹیگز ایسے سامنے آئے جو لفظ بہ لفظ بھارتی میڈیا کے بیانیے سے ملتے جلتے ہیں۔
یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بیرونی مداخلت صرف عسکری نہیں بلکہ نفسیاتی و بیانیاتی سطح پر بھی جاری ہے۔

کچھ گروہ عوامی حقوق، مہنگائی اور گورننس کے مسائل کو بنیاد بنا کر احتجاج کرتے ہیں، جو بظاہر جائز معلوم ہوتا ہے۔ مگر جب یہ احتجاج ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیزی یا پاکستان مخالف نعروں میں بدل جاتا ہے تو اصل ایجنڈا بے نقاب ہو جاتا ہے۔
یہی وہ نکتہ ہے جہاں عوامی تحریک اور پراکسی تحریک میں فرق واضح ہوتا ہے۔

مقامی لوگ اب پہچان چکے ہیں
کہ ’’حقوق کے نام پر انتشار بیچنے والے‘‘ دراصل دشمن کے ہاتھوں کا کھلونا بنے ہوئے ہیں۔

کسی بھی ملک کو کمزور کرنے کا پہلا طریقہ یہ ہے کہ اس کے اداروں پر عوامی اعتماد کو کمزور کیا جائے۔ یہی فارمولا آج کشمیر میں آزمایا جا رہا ہے۔
کچھ مقامی گروہ اور ’’سوشل میڈیا انفلوئنسرز‘‘ مسلسل پاکستانی فوج اور سکیورٹی اداروں کے خلاف منفی پروپیگنڈا پھیلا رہے ہیں۔
ان کا مقصد نہ صرف عوام کو تقسیم کرنا ہے بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کو ایک غیر جمہوری ملک کے طور پر پیش کرنا بھی ہے۔
تاہم کشمیری عوام بخوبی سمجھتے ہیں کہ اداروں کو بدنام کرنا دراصل دشمن کا بیانیہ ہے، عوام کا نہیں۔

میڈیا آج کے دور میں جنگی ہتھیار کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ دشمن ممالک نے ’’ڈیجیٹل وار فیئر‘‘ کے تحت جھوٹے بیانیے پھیلانے کے لیے جعلی اکاونٹس اور پروپیگنڈا پلیٹ فارمز بنائے ہیں۔
یہ نیٹ ورکس خاص طور پر آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں سرگرم ہیں تاکہ پاکستان کے اندرونی اتحاد کو کمزور کیا جا سکے۔
بدقسمتی سے بعض نادان مقامی کارکن غیر شعوری طور پر انہی نیٹ ورکس کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں۔

بیرونی ایجنڈے اور مقامی

کشمیری عوام اب حالات کو زیادہ بالغ نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ سمجھ چکے ہیں کہ بیرونی ایجنڈے اور مقامی پراکسی بیانیے ان کے امن، روزگار اور ترقی کے دشمن ہیں۔
عوام کا واضح پیغام یہ ہے کہ انہیں انتشار نہیں بلکہ استحکام چاہیے۔
نوجوان طبقہ تعلیم، روزگار، سرمایہ کاری اور سیاحت کے مواقع چاہتا ہے، نہ کہ بیرونی طاقتوں کے مفادات کی تکمیل کے لیے استعمال ہونا۔
یہ بھی واضح حقیقت ہے کہ کچھ بیرونی طاقتیں پاکستان کے اندر موجود قومی یکجہتی کو توڑنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
پاکستان کے خلاف نفرت انگیز مہمات دراصل بیرونی منصوبوں کا حصہ ہیں جن کا مقصد خطے میں پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ کشمیری عوام اب اس کھیل سے بخوبی آگاہ ہیں۔ انہوں نے ان سازشی بیانیوں کو مسترد کر دیا ہے۔

آج کشمیری عوام کی سب سے بڑی ترجیح امن، روزگار اور ترقی ہے۔ وہ جان چکے ہیں کہ بیرونی ایجنڈوں کے پیچھے چلنے سے ان کی زندگی میں صرف تباہی آتی ہے۔
حقیقی ترقی صرف اس وقت ممکن ہے جب عوام پاکستان کے ساتھ یکجہتی میں کھڑے ہوں اور دشمن قوتوں کے بیانیے کو مکمل طور پر رد کر دیں۔
کشمیری نوجوان اب خود کو اس ’’نفرت کے کاروبار‘‘ سے الگ کر کے ترقی کے سفر کا حصہ بن رہے ہیں۔
آزاد جموں و کشمیر کے حالات واضح اشارہ دیتے ہیں کہ پراکسی سیاست اور بیرونی بیانیے اپنی موت آپ مر رہے ہیں۔
عوام اب دشمن کے فریب سے نکل کر قومی یکجہتی، استحکام اور امن کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
پاکستان ہمیشہ کی طرح کشمیری عوام کے ساتھ کھڑا ہے، مگر یہ بھی ضروری ہے کہ عوام ایسے عناصر کو خود مسترد کریں جو بیرونی طاقتوں کے آلہ کار بن کر انتشار پھیلا رہے ہیں۔
استحکام، خوشحالی اور قومی یکجہتی ہی وہ راستہ ہے جو کشمیری عوام کو روشن مستقبل کی طرف لے جا سکتا ہے۔

اعلان دستبرداری
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • ڈاکٹر محمد عبداللہ

    محمد عبداللہ آسٹن یونیورسٹی، برطانیہ میں بین الاقوامی تعلقات میں امیدوار۔ ان کی تحقیقی دلچسپیاں عالمی سلامتی، خارجہ پالیسی کے تجزیہ اور بین الاقوامی سفارت کاری کی ابھرتی ہوئی حرکیات پر مرکوز ہیں۔ وہ علمی گفتگو میں فعال طور پر مصروف ہیں اور جنوبی ایشیائی جغرافیائی سیاست اور کثیر جہتی تعلقات پر خاص زور دینے کے ساتھ علمی پلیٹ فارمز میں حصہ ڈالتے ہیں۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔