Nigah

آسام ریلوے دھماکہ، بھارتی ریاست کا اندرونی زوال

آسام ریلوے دھماکہ۔۔ بھارتی ریاست کا اندرونی زوال

بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام ایک بار پھر عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔ جہاں ضلع سیواساگر میں ریلوے پٹڑی پر ایک زوردار دھماکے نے سکیورٹی اداروں کو ہلا کر رکھ دیا۔
کولکاراچار اور صلاح کاٹی ایسٹ اسٹیشن کے درمیان پیش آنے والے اس واقعے نے نہ صرف ریلوے نظام کو مفلوج کیا بلکہ بھارتی ریاست کے داخلی استحکام پر گہرے سوالات کھڑے کر دیے۔
اکتوبر 2025 کے دوران آسام میں اس نوعیت کے متعدد تخریبی واقعات پیش آ چکے ہیں، جن کی ذمہ داری مختلف علیحدگی پسند گروہوں، خصوصاً یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام (ULFA) پر عائد کی جا رہی ہے۔ یہ دھماکے محض ریلوے لائنوں کی تباہی نہیں بلکہ بھارت کی اندرونی پالیسیوں، وفاقی ناانصافی اور مقامی عوام کی محرومیوں کا شور ہیں۔
آسام بھارت کی ان چند ریاستوں میں شامل ہے جہاں آزادی کے فوراً بعد سے علیحدگی پسندی، نسلی شناخت اور معاشی استحصال کے خلاف آوازیں بلند ہوتی رہی ہیں۔ 1979 میں سیواساگر ضلع ہی وہ مقام تھا جہاں ULFA کی بنیاد رکھی گئی۔ ایک ایسی تنظیم جو بھارت کے وفاقی ڈھانچے سے بیزاری اور خودمختاری کے جذبے کی علامت بنی۔

اس تحریک کا بنیادی نعرہ“آسام فار آسامیز”تھا، یعنی آسام کے وسائل اور فیصلوں پر صرف مقامی عوام کاحق۔

مگر دہلی کی حکومت نے اس آواز کو سیاسی ڈائیلاگ کے بجائے عسکری طاقت سے دبانے کی کوشش کی۔ جس کے نتیجے میں تشدد، بداعتمادی اور علیحدگی پسندی نے جڑیں مضبوط کر لیں۔
آسام تیل، کوئلہ، چائے، لکڑی اور گیس جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ ہے۔ مگر ان وسائل کا حقیقی فائدہ کبھی مقامی عوام تک نہیں پہنچ سکا۔

آسام تیل، کوئلہ، چائے، لکڑی اور گیس جیسے
مرکزی حکومت نے دہائیوں تک ریونیو ڈومینیشن کی پالیسی کے تحت آسام کے وسائل کا استحصال کیا۔ تیل کی پیداوار کا بڑا حصہ دہلی لے جایا گیا جبکہ آسام کے شہروں اور دیہات غربت، بیروزگاری اور بنیادی سہولتوں سے محروم رہے۔
یہی معاشی ناانصافی ULFA اور دیگر گروہوں کے لیے عوامی حمایت کی بنیاد بنی۔ عوام کو یقین ہو گیا کہ بھارتی نظام ان کے لیے نہیں بلکہ ان کے وسائل کی لوٹ مار کے لیے وجود رکھتا ہے۔
بھارت نے آسام میں علیحدگی پسندی کو دبانے کے لیے آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ (AFSPA) جیسے سخت قوانین نافذ کیے۔ جن کے تحت فوجی اہلکاروں کو گرفتاری، تلاشی اور فائرنگ کے غیر معمولی اختیارات مل گئے۔
ان اختیارات کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ شہری جبری گمشدگی، ماورائے عدالت قتل اور تشدد کا شکار ہوئے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں بشمول ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے بارہا بھارتی حکومت کو خبردار کیا کہ اس جبر سے بغاوت کم نہیں بلکہ بڑھ رہی ہے۔ نتیجتاً ULFA کی مسلح جدوجہد محض “دہشت گردی” نہیں رہی بلکہ مقامی آبادی کے لیے “سیاسی ردعمل” کا استعارہ بن گئی۔
آسام کے ریلوے نظام پر حملے دراصل علامتی نوعیت رکھتے ہیں۔ یہ ریاستی طاقت، وسائل کی نقل و حرکت اور دہلی کے اقتصادی کنٹرول کی علامت ہیں۔ ULFA اور اس کے عسکری دھڑے ان حملوں کے ذریعے دہلی کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ “ہم تمہاری ریلوں اور راستوں پر تمہارا قبضہ تسلیم نہیں کرتے۔”
گذشتہ تین دہائیوں کے دوران آسام میں سینکڑوں ریلوے لائنوں، پولیس چوکیاں اور مواصلاتی تنصیبات حملوں کی زد میں آ چکی ہیں۔
یہ حملے نہ صرف سیکورٹی کمزوریوں کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ ریاستی ادارے عوامی اعتماد کھو چکے ہیں۔
ابتدا میں ULFA کا منشور محض علیحدگی پر مبنی تھا مگر وقت کے ساتھ اس نے خود کو عوامی حقوق، معاشی انصاف اور سیاسی خودمختاری کی تحریک کے طور پر پیش کیا۔
تاہم ریاستی تشدد، میڈیا بلیک آؤٹ اور مذاکراتی ناکامی نے اس تحریک کے اندر بھی تقسیم پیدا کر دی۔
آج ULFA دو بڑے دھڑوں میں بٹ چکی ہے

ULFA-Independent (Paresh Baruah Group) جو مسلح جدوجہد پر یقین رکھتا ہے۔
دوسرا گروپ جو حکومت سے بات چیت کا خواہاں ہے۔
یہ تقسیم بھارتی ریاست کے لیے وقتی ریلیف ضرور ہے، مگر بنیادی مسئلہ بدستور جوں کا توں ہے۔
عوام کے دلوں میں دہلی کے خلاف بدگمانی اور استحصال کا احساس۔
بھارتی مین اسٹریم میڈیا اکثر آسام کی صورتحال کو “انسداد دہشت گردی کی کامیابی” کے طور پر دکھاتا ہے۔ مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔
دیہی آسام میں آج بھی فوجی چیک پوسٹوں، کرفیو اور خوف کی فضا برقرار ہے۔
مقامی نوجوان روزگار کے مواقع نہ ہونے کے باعث یا تو بھارت کے دیگر شہروں کی طرف ہجرت پر مجبور ہیں یا پھر مسلح گروہوں کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔
بھارتی میڈیا کے جھوٹے بیانیے نے نہ صرف عوام کو گمراہ کیا بلکہ قومی اتفاقِ رائے کے امکانات بھی ختم کر دیے۔

قومی اتفاقِ رائے
آسام کا بحران دراصل بھارت کے وفاقی نظام کی ناکامی کی علامت ہے۔ شمال مشرقی ریاستوں کو دہلی ہمیشہ “حاشیہ پر موجود اکائیاں” سمجھتا رہا۔
ان کی ثقافتی شناخت، لسانی تنوع اور اقتصادی ضروریات کو قومی پالیسی میں کبھی مرکزی حیثیت نہیں دی گئی۔ یہی احساسِ محرومی ناگا لینڈ، منی پور، تریپورہ اور میزورم جیسے علاقوں میں بھی پنپ رہا ہے۔
آسام کا حالیہ ریلوے دھماکہ دراصل ایک “سکیورٹی واقعہ” سے زیادہ ایک سیاسی پیغام ہے کہ جب مرکز صوبوں کے حقوق نظر انداز کرے تو ریاستی ریلیں بھی محفوظ نہیں رہتیں۔
بھارت بظاہر ایک مضبوط جمہوری ملک دکھائی دیتا ہے مگر حقیقت میں وہ اندر سے شدید نسلی، معاشی اور لسانی تضادات کا شکار ہے۔
آسام، منی پور اور دیگر ریاستوں میں عسکریت پسندی کے بڑھتے واقعات ثابت کرتے ہیں کہ دہلی کے پاس سیاسی حل نہیں بلکہ صرف فوجی طاقت باقی رہ گئی ہے۔
یہی وہ غلطی ہے جو ہر بڑی ریاست نے کی۔ جب حکومت اپنی عوام کو دشمن سمجھنے لگے تو بغاوت ناگزیر ہو جاتی ہے۔
ریلوے دھماکہ اسی ناانصافی، جبر اور مایوسی کی ایک کڑی ہے۔
بھارت کا اندرونی عدم استحکام اس کے ہمسایوں پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔ شمال مشرقی سرحدوں پر بڑھتی عسکری سرگرمیاں بنگلہ دیش اور میانمار کی سلامتی کے لیے بھی خطرہ بن رہی ہیں۔
عالمی مبصرین کے مطابق اگر بھارت نے آسام، منی پور اور ناگا لینڈ جیسے علاقوں میں سیاسی اصلاحات نہ کیں تو یہ بغاوتیں آئندہ دہائی میں علاقائی بحران میں بدل سکتی ہیں۔
جنوبی ایشیا، جو پہلے ہی ماحولیاتی و معاشی چیلنجز سے نبردآزما ہے، کسی نئی داخلی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
آسام ریلوے دھماکہ ایک بار پھر اس حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ سیاسی تنازعات کا حل بندوق سے نہیں بلکہ مکالمے سے نکلتا ہے۔
بھارتی حکومت اگر واقعی شمال مشرق میں امن چاہتی ہے تو اسے جبر، میڈیا کنٹرول اور عسکریت پسندی کے چکر سے باہر نکلنا ہوگا۔
مقامی عوام کو فیصلہ سازی میں شامل کرنا، وسائل پر ان کے حقوق تسلیم کرنا اور ثقافتی خودمختاری دینا ہی پائیدار امن کی ضمانت ہے۔ ورنہ آسام کے ریلوے دھماکے محض حادثے نہیں رہیں گے بلکہ بھارتی ریاست کے اندرونی زوال کی علامت بن جائیں گے۔

اعلان دستبرداری
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • ڈاکٹر مزمل خان

    مزمل خان سیاست اور بین الاقوامی معاشیات میں گہری دلچسپی کے ساتھ، ان کا تعلیمی کام اس بات کی کھوج کرتا ہے کہ کس طرح بنیادی ڈھانچہ اور جغرافیائی سیاسی حرکیات تجارتی راستوں اور علاقائی تعاون کو متاثر کرتی ہیں، خاص طور پر جنوبی اور وسطی ایشیا میں۔ موزممل شواہد پر مبنی تحقیق کے ذریعے پالیسی مکالمے اور پائیدار ترقی میں حصہ ڈالنے کے لیے پرجوش ہے اور اس کا مقصد تعلیمی انکوائری اور عملی پالیسی سازی کے درمیان فرق کو ختم کرنا ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔