Nigah

آپریشن سندور شکست کی راکھ سے جنم لیتی بھارتی مایوسی

آپریشن سندور شکست کی راکھ سے جنم لیتی بھارتی مایوسی

بھارتی عسکری سیاسی اور اخلاقی زوال کی تازہ ترین مثال آپریشن سندور ہے۔ ایک ایسی مہم جو دراصل طاقت کے مظاہرے کے لیے تیار کی گئی تھی ، مگر نتیجے میں مودی سرکار کو ایسی تاریخی شکست سے دو چار ہونا پڑا۔ جس نے دہائیوں کے پروپیگنڈے کو زمین بوس کر دیا۔ آر ایس ایس کے زیر سایہ بھارت کی عسکری قیادت نے پاکستان کے خلاف سرجیکل سٹرائیک کا خواب دیکھا، مگر انجام اتنا بھیانک تھا کہ خود بھارتی میڈیا نے اسے وشو گرو بھارت کی ذلت آمیز رات قرار دیا۔ چھ بھارتی لڑاکا طیارے تباہ ہوئے، درجنوں پائلٹ یا تو ہلاک ہوئے یا پاکستانی حدود میں گرفتار ہوئے۔ پورے ملک میں سیاسی عسکری قیادت کے خلاف غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔
مودی سرکار کی خارجہ پالیسی کا تضاد اس وقت ننگا ہو گیا جب طالبان کے وزیر خارجہ کو نئی دہلی میں سرکاری اعزاز کے ساتھ خوش آمدید کہا گیا وہی بھارت جو کل تک طالبان کو وحشی، خواتین دشمن اور جمہوریت مخالف قوت قرار دیتا تھا۔ آج انہی کے سامنے دست بستہ کھڑا ہے۔
بھارتی تجزیہ کار منو جین نے اپنے کالم میں لکھا
"ہم آزادی کے وقت اتنے کمزور نہ تھے اگر آج پاکستان کے خلاف لڑنے کے لیے ہمیں طالبان کی ضرورت پڑ گئی ہے تو ہم کس عالمی قیادت کے دعویدار ہیں؟ آپریشن سندور نے ہمیں اتنا غیر مستحکم کر دیا کہ اب سمجھ نہیں آرہاکہ چین جائیں یا طالبان کے پاس۔ منو جین نے یہ بھی لکھا کہ جس حکومت کی بنیاد منو سمرتی جیسی دقیانوسی سوچ پر ہے، وہ خواتین کے اختیار یا مساوات کی بات محض سیاسی نعرے کے طور پر کرتی ہے ۔ طالبان سے قربت دراصل اسی ذہنیت کا تسلسل ہے جو عورت کو تابع رکھنے کو ہی ثقافتی تحفظ سمجھتی ہے۔
طالبان کے قائم مقام وزیر خارجہ کی نئی دہلی آمد پر پہلی پریس کانفرنس میں بھارتی خواتین صحافیوں کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی یہ فیصلہ مودی سرکار کی خاموش رضامندی سے ہوا، جس پر پورے بھارت میں طوفان برپا ہو گیا۔ سوشل میڈیا پر سوال اٹھے کہ جب وہی حکومت جو خود کو ناری شکتی عورتوں کی طاقت کی علمبردار کہتی ہے، اب طالبان کے سامنے سر جھکا کر اپنی ہی خواتین کی تذلیل کرے گی؟
مودی جی نے پاکستان کے خوف میں بھارت کا قومی وقار گروی رکھ دیا ہے۔ ٹی وی چینل پر ایک جملہ مسلسل گردش کرتا رہا ۔ وشوگرو بھارت کی شرمناک رات، یہ وہ رات ہے جب بھارت عسکری محاذ پر ہارا، اور سفارتی محاز پرجھک گیا۔ صورتحال اس وقت مزید مضحکہ خیز ہو گئی جب نئی دلی میں افغان سفارت خانے کے اندر طالبان نمائندوں نے افغان قومی پرچم اتار کر اپنا جھنڈا لہرانے کی کوشش کی۔ جس پر سابق صدر اشرف غنی حکومت کے عملے نے شدید مزاحمت کی۔
بھارتی دفاعی ماہرین نے کھل کر آپریشن سندور کو تباہ کن سیاسی مہم قرار دیا۔ سشانت سنگھ (ییل یونیورسٹی) نے دی وائر کو بتایا "یہ مشن تکنیکی لحاظ سے محدود اور اسٹریٹجک لحاظ سے تباہ کن تھا۔ چند معمولی اہداف پر حملے کے لیے چھ طیارے قربان کرنا ملک نہیں سیاست بچانے کی کوشش تھی۔ "اسی طرح پروین ساونی (فورس میگزین) نے کہا کہ عارضی کیمپوں پر حملہ فوجی لحاظ سے بے کار ثابت ہوا بلکہ اس نے بھارتی دفاعی کمزوریوں کو دنیا کے سامنے عیاں کر دیا. دونوں ماہرین کے مطابق یہ الیکشن سٹنٹ تھا، جس نے بھارت کو عالمی سطح پر تنہا کر دیا۔

سابق صدر اشرف غنی حکومت
ڈاکٹر سبیر سنہا (ایس او اے ایس ساؤتھ ایشیا انسٹیٹیوٹ) نے فرانس 24 پر تجزیہ کرتے ہوئے کہا”طالبان سے بھارت کا اچانک رومانس دراصل پاکستان کو گھیرنے کی ناکام کوشش ہے” انہوں نے بھارت کی نئی پالیسی کے چار خفیہ مقاصد بیان کئے۔

پاکستان کے خلاف براہ راست ناکامی کے بعد بالواسطہ دباؤ پیدا کرنا۔
افغانستان میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ کو روکنا۔
افغانستان کے قدرتی وسائل خاص طور پر لیتھیم تانبا اور سونا پر قبضے کی کوشش۔
بہار انتخابات سے قبل مسلم ووٹ حاصل کرنے کی سیاسی چال۔

ڈاکٹر سنہا نے انکشاف کیا کہ کابل میں طالبان کے حامی میڈیا نے بھارتی سرپرستی میں یہ نعرہ پھیلایا "افغان پرچم جلد اٹک اور کوئٹہ میں لہرائے گا "یہ بیانیہ واضح طور پر بی ایل اے اور ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد گروہوں کی بھارتی سرپرستی سے جڑا ہوا ہے۔ ایک ایسی پراکسی پالیسی جو خطے کے امن کے لیے شدید خطرہ بن چکی ہے۔ اقوام متحدہ نے طالبان حکومت کے اقدامات کو صنفی امتیاز کی انتہا قرار دیا۔ اسی وقت مودی حکومت ان ہی رہنمائوں کا سرخ قالین بچھا کر خوش امدید کہہ رہی تھی۔ بھارتی دانشوروں نے اسے قومی اخلاقیات کا جنازہ کہا ۔یہ وہی حکومت ہے جو اقلیتوں خواتین اور مذہبی آزادی کے نام پر عالمی فورمز پر اخلاقی لیکچر دیتی ہے مگر پس پردہ انہی قوتوں سے تعلقات بڑھاتی ہے۔ جنہیں کل تک دہشت گرد کہا جاتا تھا۔ مودی سرکار کی یہ منافقت نہ صرف بھارت کی اخلاقی ساکھ کے لیے زہر قاتل ثابت ہوئی بلکہ عالمی برادری کو یہ باور کرا گئی کہ بھارت اب کسی اصولی موقف پر کھڑا نہیں۔ دوسری جانب پاکستان میں نہایت تحمل اور ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں اور سفارتی مشنوں نے یہ ثابت کر دیا کہ پاکستان خطے میں امن استحکام اور تعاون کا علمبردار ہے۔ عالمی میڈیا نے تسلیم کیا کہ اسلام آباد کا رد عمل دانشمندانہ اور بین الاقوامی قانون کے مطابق تھا جبکہ بھارت کے اقدامات جذباتی، انتقامی اور غیر پیشہ ورانہ ہیں۔
تمام شواہد بیانات اور زمینی حقائق ایک ہی سمت اشارہ کرتے ہیں کہ:
آپریشن سندور نے بھارتی عسکری صلاحیت کی حقیقت بے نقاب کر دی۔
طالبان سے تعلقات میں خارجہ پالیسی کی الجھنوں کو اجاگر کیا۔
ٹی ٹی پی اور بی ایل اے جیسی تنظیموں کی سرپرستی نے بھارت کے اخلاقی زوال کو ثابت کر دیا۔ مودی حکومت نے خوف، انتقام اور سیاسی مصلحتوں میں الجھ کر بھارت کو وشو گروہ سے خود فریب ریاست میں بدل ڈالا ہے۔
بھارتی تجزیہ کار اور ماہرین منو جین، سشانت سنگھ، پراوین ساونی اور ڈاکٹر سبیر سنہا یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ مودی کی پالیسیاں ناکامیوں کا تسلسل ہیں جنہیں حکمت عملی کا لبادہ اوڑھا دیا گیا ہے۔ جو کبھی آپریشن سندور کہلاتا تھا اب آپریشن سرنڈر بن چکا ہے، جہاں بھارت نے نہ صرف جنگی وقار بلکہ اخلاقی ساکھ بھی کھو دی۔ بھارت کی طاقت کے مظاہرے کی سیاست نے اس کے اندرونی تضادات کو آشکار کر دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں نئی دہلی کی حکومت اب خود اپنی غلط پالیسیوں کی راکھ میں جل رہی ہے۔ ایک ایسی راکھ جس سے صرف مایوسی تنہائی اور شرمندگی جنم لے رہی ہے۔

اعلان دستبرداری
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • ڈاکٹر حمزہ خان

    ڈاکٹر حمزہ خان نے پی ایچ ڈی کی ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں، اور یورپ سے متعلق عصری مسائل پر توجہ مرکوز کرتا ہے اور لندن، برطانیہ میں مقیم ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔