امریکہ اس وقت H-1B ویزا پروگرام کی تاریخ کی سب سے بڑی تحقیقات کر رہا ہے۔ یہ وہی پروگرام ہے جسے کبھی ہنر مند غیر ملکی پیشہ ور افراد کو امریکہ کی معیشت میں شامل کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، مگر وقت کے ساتھ ساتھ بھارت نے اس نظام کو اپنی معاشی اور سفارتی اجارہ داری کی آڑ میں تبدیل کر دیا۔
اب جبکہ امریکی محکمہ انصاف، محکمہ محنت اور کانگرس اس فراڈ کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف ہیں، بھارت کی کئی دہائیوں سے جاری چالاکیاں اور استحصالی حربے ایک ایک کر کے سامنے آرہے ہیں۔
اعداد و شمار خود اپنی کہانی سناتے ہیں کہ 71 فیصد H-1B ویزا بھارتی شہریوں کے قبضے میں ہے۔ اس کے مقابلے میں چین کا حصہ صرف 11.7 فیصد، فلپائن کا 1.3 فیصد، کینیڈا 1.1 فیصد، جنوبی کوریا ایک فیصد اور پاکستان کا ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ یعنی یہ پروگرام جو عالمی سطح پر شفاف مواقع فراہم کرنے کے لیے وضع کیا گیا تھا، عملاً بھارتی غلبے کا شکار ہو چکا ہے۔
آئی ٹی کمپنیوں جیسے Amazon, Microsoft, Apple, Google, Meta, Tata Consultancy Services (TCS), JP Morgan Chase, Walmart, Cognizant, Deloitte میں بھارتی کلیدی ایگزیکٹوز عہدوں پر قبضہ کیے ہوئے ہیں۔
یہ صورتحال صرف معاشی نہیں بلکہ اخلاقی سوال بھی اٹھاتی ہے کہ کیا واقعی بھارت اپنی "ٹیلنٹ نیشن” کی شہرت کے لائق ہے یا وہ منظم اقربا پروری اور دھوکہ دہی کے ذریعے عالمی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنائے ہوئے ہے؟
بھارتی اجارہ داری کا سب سے بڑا نقصان امریکی شہریوں کو ہوا ہے۔ ریپبلیکن سینیٹر چک گراسلی اور ڈیموکریٹک سینیٹر ڈک ڈربن نے مشترکہ طور پر تحقیقات شروع کی ہیں کہ بھارتی کمپنیوں نے کس طرح امریکی کارکنوں کی جگہ سستی لیبر کے ذریعے اپنے منافع بڑھائے۔
درحقیقت کئی بھارتی کمپنیوں پر یہ الزام ثابت ہو چکا ہے کہ وہ امریکی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اجرت کم دیتی ہیں، جعلی ملازمتوں کے معاہدے بناتی ہیں اور شفافیت سے گریز کرتی ہیں۔
H-1B ویزا ہولڈرز جو بظاہر ٹیکنالوجی ایکسپرٹس کے طور پر آئے تھے، ان کی جگہ لے بیٹھے۔ اس صورتحال نے امریکہ میں بھارت کے خلاف عوامی ناراضی کو جنم دیا ہے۔
امریکی محکمہ انصاف کے مطابق Nano Semantics Inc اور اس جیسی درجنوں بھارتی کمپنیوں نے جعلی ملازمتوں، فرضی پروجیکٹس اور خالی کمپنیوں کے ذریعے ویزا سسٹم کا استحصال کیا۔
یہ کمپنیاں ایک ہی شخص کے لیے متعدد ویزا درخواستیں جمع کر کے سسٹم کو manipulate کرتی ہیں۔ یہ محض کاروباری چال نہیں بلکہ ایک منظم مجرمانہ نیٹ ورک ہے جس نے امریکی نظام کی ساکھ کو متاثر کیا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے H-1B ویزا فیس ایک لاکھ امریکی ڈالر تک بڑھا دی۔ یہ دراصل بھارتی اجارہ داری کے خلاف عوامی غصے کا اظہار تھا۔
آج گوگل کے سی ای او سندر پچائی، مائیکروسافٹ کے سربراہ ستیہ نڈیلا اور درجنوں عالمی کمپنیوں کے اعلیٰ عہدے بھارتی نژاد افراد کے پاس ہیں۔ بظاہر یہ کامیابی اور مخصوص مفاداتی گروپوں کی برتری کا مظہر ہے، لیکن ان کمپنیوں کے اندر بھارتی کمیونٹیز نے اس حد تک اثر و رسوخ حاصل کر لیا ہے کہ اہلِ امریکہ یا دیگر ممالک کے افراد کے لیے ترقی کے راستے مسدود ہو گئے ہیں۔
یہ منظرنامہ بھارت کے سافٹ پاور بیانیے کے پیچھے چھپی سفارتی خودغرضی اور معاشی استحصال کی نشاندہی کرتا ہے۔ بھارت اب محض ٹیکنالوجی برآمد نہیں کر رہا، بلکہ اپنی بالادستی کے بیج بو رہا ہے، چاہے اس کے لیے کسی دوسرے ملک کے شہریوں کا معاشی نقصان ہی کیوں نہ ہو۔
H-1B ` میں بھارتی غلبہ اب محض معاشی بحث نہیں رہا، بلکہ یہ ایک سیاسی اور سماجی بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
امریکی عوام کا یہ احساس تقویت پا رہا ہے کہ بھارت نہ صرف امریکی ملازمین ہڑپ کر رہا ہے بلکہ امریکی کمپنیوں کے اندر ثقافتی تفریق پیدا کر رہا ہے۔
امریکی تھنک ٹینکس اور میڈیا رپورٹس کھل کر یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا بھارت واقعی ایک قابلِ اعتماد تجارتی شراکت دار ہے یا وہ ہر ملک کے موقع پر خود غرضی کا مظاہرہ کرتا ہے؟
یہ مباحثہ امریکی بھارتی تعلقات میں سرد مہری پیدا کر رہا ہے اور واشنگٹن کے پالیسی حلقوں میں بھارت کی اخلاقی حیثیت پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
موجودہ صورتحال میں پاکستان کے لیے ایک نادر موقع ہے کہ H-1B پروگرام میں پاکستانی نمائندگی جو ایک فیصد سے بھی کم ہے، اس صورتحال میں پاکستان ایک غیر جانبدار اور شفاف پارٹنر کے طور پر سامنے آسکتا ہے۔
اسلام آباد امریکی پالیسی سازوں کے سامنے یہ موقف رکھ سکتا ہے کہ جنوبی ایشیا میں صرف بھارت ہی نہیں بلکہ پاکستان میں بھی ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، فائنانس اور سائبر سکیورٹی کے شعبے میں وسیع استعداد موجود ہے۔
پاکستانی ٹیلنٹ جو طویل عرصے سے بھارتی اجارہ داری کے باعث نظرانداز ہوتا رہا، اب امریکہ میں اپنی شناخت بنانے کے لیے سازگار فضا پیدا کر سکتا ہے۔
پاکستانی سفارت خانوں، آئی ٹی انڈسٹری اور تعلیمی اداروں کو ایک مربوط حکمتِ عملی اپنانی چاہیے تاکہ امریکی کمپنیوں میں پاکستانی پیشہ ور افراد کی شمولیت بڑھے اور بھارت کی مصنوعی بالادستی کو متوازن کیا جا سکے۔
میڈیا و پالیسی فورمز پر پاکستانی ماہرین اور تھنک ٹینکس امریکی مباحثوں میں حصہ لے کر بھارت کے ویزا فراڈ، جعلی ملازمتوں اور اقربا پروری کے شواہد پیش کریں۔
پاکستانی یونیورسٹیوں اور آئی ٹی اداروں کو امریکی انڈسٹریز کے ساتھ براہ راست روابط استوار کرنے چاہئیں تاکہ پاکستانی پروفیشنلز کی نمائندگی بڑھے۔
بھارت کا ویزا پروگرام پر غیر متناسب قبضہ دراصل اس کی عالمی خودغرضی، سفارتی چالاکی اور معاشی استحصال کی علامت بن چکا ہے۔
امریکی تحقیقات نے بھارت کے اس دوغلے پن کو بے نقاب کر دیا ہے جو ایک طرف شراکت داری کی بات کرتا ہے اور دوسری طرف دھوکہ دہی سے نظام پر قابض رہنے کی کوشش کرتا ہے۔
بھارت کے فراڈ پر مبنی غلبے کا خاتمہ صرف امریکہ کے مفاد میں نہیں بلکہ عالمی سطح پر شفافیت، انصاف اور حقیقی میرٹ کے فروغ کے لیے ناگزیر ہے۔
پاکستان اس شفاف تبدیلی کا فطری اور قابلِ اعتماد شراکت دار بن سکتا ہے۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
محمد عبداللہ آسٹن یونیورسٹی، برطانیہ میں بین الاقوامی تعلقات میں امیدوار۔ ان کی تحقیقی دلچسپیاں عالمی سلامتی، خارجہ پالیسی کے تجزیہ اور بین الاقوامی سفارت کاری کی ابھرتی ہوئی حرکیات پر مرکوز ہیں۔ وہ علمی گفتگو میں فعال طور پر مصروف ہیں اور جنوبی ایشیائی جغرافیائی سیاست اور کثیر جہتی تعلقات پر خاص زور دینے کے ساتھ علمی پلیٹ فارمز میں حصہ ڈالتے ہیں۔
View all posts