پاکستان کے قبائلی علاقوں اور سرحدی پٹی میں حالیہ پر تشدد واقعات نے ایک بار پھر سوال کھڑا کر دیا ہے کہ امن دشمن قوتوں کے اصل مقاصد کیا ہیں۔اور ان کے پس پردہ کون سے عناصر سرگرم ہیں ۔یہ واقعات محض ایک مخصوص علاقے کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے ملک کے امن، استحکام اور قومی یکجہتی سے جڑے ہیں۔
گزشتہ چند ہفتوں میں مختلف علاقوں میں ہونے والے حملوں، جھڑپوں اور اشتعال انگیز بیانات نے یہ واضح کر دیا ہے کہ دہشت گرد گروہ اب بھی اپنی موجودگی برقرار رکھے ہوئے ہیں اور ان کی کوشش یہی ہے کہ پاکستان کے اندر بد اعتمادی، لسانی تقسیم اور ریاستی اداروں کے خلاف نفرت کو ہوا دی جائے۔
ان تمام زخموں کی اصل ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) پر عائد ہوتی ہے۔ یہ تنظیم جان بوجھ کر عام آبادی کے درمیان کام کرتی ہے ۔گھروں اور گلیوں میں چھپتی ہے اور بچوں، عورتوں اور بزرگوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتی ہے۔
یہ حکمت عملی نہ صرف بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ اسلام کی بنیادی تعلیمات سے بھی متصادم ہے۔ اسلام تو معصوم جان کے تحفظ کو سب سے بڑی ذمہ داری قرار دیتا ہے۔ مگر ٹی ٹی پی نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے نہ صرف بے گناہ لوگوں کو ہلاک کیا بلکہ سکیورٹی فورسز کو ایسے الزامات پر مجبور کیا جن سے عام شہری متاثر ہوئے۔
درحقیقت جب دہشت گرد کسی گاوں یا علاقے میں چھپتے ہیں تو اپنے ہی پڑوسیوں کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ ریاستی فورسز اگر کارروائی نہ کریں تو ملک کے شہریوں کی جان خطرے میں پڑ جاتی ہے ۔اور اگر کارروائی کریں تو دہشت گرد اس کے اثرات کو پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
یہی وہ نفسیاتی جنگ ہے جو ٹی ٹی پی برسوں سے لڑ رہی ہے۔ جہاں وہ گولی سے زیادہ خوف کے ذریعے معاشرے کو کمزور کرتی ہے۔ بدقسمتی سے بعض حلقے خصوصا پشتون تحفظ موومنٹ( پی ٹی ایم) ہر واقعے کے بعد صرف پاکستانی ریاست کو مورد الزام ٹھہراتی ہے۔یہ طرز عمل نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ دہشت گردوں کے بیانیے کو تقویت دیتا ہے۔
جب ایک فریق دہشت گردی پھیلاتا ہے، عوام کو ڈراتا ہے اور انہیں ہتھیار اٹھانے پر مجبور کرتا ہے۔ تو ذمہ داری صرف ریاست پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ ریاست کا کام امن قائم کرنا اور عوام کا تحفظ ہے۔ جبکہ ٹی ٹی پی اور اس کے سہولت کار وہ لوگ ہیں جو انتشار سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
افغانستان سے منسلک سرحدی علاقوں میں یہ واضح ہو چکا ہے کہ ٹی ٹی پی اپنے حملوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی پاکستان اپنے دفاعی اقدامات تیز کرتا ہے تو مخصوص گروہ اسے ریاستی جبر قرار دے کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اصل سوال یہ ہے کہ کیا دہشت گردوں کو پناہ دینا،ان کے بیانیے کی تائید کرنا یا ان کے خلاف کارروائی میں رکاوٹ ڈالنا حب الوطنی کے زمرے میں آتا ہے ؟ یقینا نہیں۔ پاکستان کے سکیورٹی اداروں کے پاس واضح شواہد موجود ہیں کہ افغانستان کے اندر موجود کچھ عناصر اب بھی ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو پناہ، اسلحہ اور سہولت فراہم کر رہے ہیں۔
یہ نیٹ ورکس نہ صرف سرحد پار کارروائیاں کرتے ہیں بلکہ ان کے مالی وسائل اور تربیتی مراکز بھی افغانستان کے اندر قائم ہیں۔
پاکستان نے بارہا کابل حکومت کو خبردار کیا ہے کہ ایسا عناصر کے خلاف موثر کارروائی کی جائے۔مگر بد قسمتی سے ابھی تک کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوئی۔
جب تک افغانستان اپنے اندر موجود ان دہشت گرد نیٹ ورکس کو ختم نہیں کرتا۔ پاکستان کو اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے فیصلہ کن اقدامات کرنا ہی ہوں گے۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سرحد پار دہشت گردی صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں۔ یہ علاقائی سلامتی کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ بن چکی ہے۔
پاکستان کا آئین اور ریاستی پالیسی واضح ہے۔ چاہے کوئی پختون ہو، پنجابی، بلوچ یا سندھی، سب برابر شہری ہیں۔ ریاست کی اولین ذمہ داری ہر شہری کا تحفظ اور انصاف ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو لسانی یا نسلی زاویے سے پیش کرنا نہ صرف حقائق کو مسخ کرنا ہے بلکہ دہشت گردوں کے مقاصد کو پورا کرنا ہے۔ جب عوام کے ذہنوں میں تاثر پیدا کیا جائے کہ یہ کسی قوم یا زبان کی جنگ ہے تو اصل مجرم پس منظر میں چھپ جاتے ہیں۔
پاکستان نے بارہا ثابت کیا ہے کہ اس کی فوج اور سول ادارے کسی مخصوص علاقے یا قوم کے خلاف نہیں۔ بلکہ صرف ان قوتوں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں جو ریاست دشمن ایجنڈا رکھتی ہیں۔ اس کے باوجود بعض سیاسی اور سماجی گروہ اپنے محدود مفادات کے لیے یہ تاثر دیتے ہیں کہ یہ لڑائی ریاست بمقابلہ عوام کی ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
آج پاکستان کو جس سب سے بڑے خطرے کا سامنا ہے وہ صرف بندوق نہیں بلکہ تقسیم ہے۔ اگر قوم لسانی، قبائلی یا علاقائی بنیادوں پر تقسیم ہو جائے تو سب سے زیادہ فائدہ ٹی ٹی پی اور اس کے سرپرستوں کو ہوتا ہے۔ یہی ان کی حکمت عملی ہے کہ عوام کو ایک دوسرے کے خلاف کر دیا جائے تاکہ ریاست کمزور پڑے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ریاست قبائلی لڑائی چاہتی ہے وہ دراصل دہشت گردوں کے بیانیہ کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ریاست کسی بھی طور پر داخلی انتشار کی خواہاں نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ امن ہی ریاست کا سب سے بڑا اثاثہ ہے۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی، مذہبی اور قبائلی قیادت ایک صف میں کھڑی ہو تاکہ دہشت گردوں کو کوئی موقع نہ ملے کہ وہ قومی یکجہتی کو نقصان پہنچا سکیں۔
پاک افغان تعلقات میں موجودہ کشیدگی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ مگر اس صورتحال سے سب سے زیادہ نقصان عام شہریوں کو ہوتا ہے۔ جب سرحد پار دہشت گردی ہوتی ہے تو پاکستان کو اپنے دفاع میں کارروائی کرنا پڑتی ہے۔ جس کا اثر سرحدی دیہاتوں کے عام لوگوں پر بھی پڑتا ہے۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب دشمن قوتیں پروپیگنڈے کے ذریعے عوامی جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کرتے ہیں۔
لہٰذا ضروری ہے کہ اس مشکل وقت میں قوم متحد رہے۔ لسانیت یا قومیت کے نام پر انتشار پھیلانے کے بجائے دہشت گردی کے خلاف یکجہتی دکھانا سب سے بڑا جواب ہے۔ ریاستی اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ شہریوں کے تحفظ، طبی امداد اور شفاف تحقیقات کے عمل کو مضبوط بنائے تاکہ عوام کا اعتماد بحال رہے۔ پاکستان اس وقت یہ فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے۔
اگر معاشرہ دہشت گردوں کے پروپیگنڈے کا شکار ہو گیا تو ملک میں امن کی بحالی مزید مشکل ہو جائے گی۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ دہشت گردی کا خاتمہ صرف بندوق سے نہیں بلکہ قومی اتحاد، سیاسی مکالمے اور سماجی ہم آہنگی سے ممکن ہے۔
ریاست کو چاہیے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف اپنی حکمت عملی کو مزید شفاف بنائے۔ مقامی آبادی کو اعتماد میں لے اور ہر ممکن حد تک شہری جانوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
دوسری طرف عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی بھی پروپیگنڈے یا اشتعال انگیز مہم کا حصہ نہ بنے۔ امن تبھی واپس آسکتا ہے جب ہم سب یہ تسلیم کر لیں کہ دہشت گردی کسی قوم، قبیلے یا مذہب کا مسئلہ نہیں۔ یہ ایک انسانیت دشمن جرم ہے جس کے خلاف ہم سب کو متحد ہونا ہوگا۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
ڈاکٹر سید حمزہ حسیب شاہ ایک تنقیدی مصنف اور تجزیہ کار ہیں جو بین الاقوامی تعلقات میں مہارت رکھتے ہیں، خاص طور پر ایشیا اور جغرافیائی سیاست پر توجہ دیتے ہیں۔ انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اردو میں اور علمی اور پالیسی مباحثوں میں فعال طور پر حصہ ڈالتا ہے۔View all posts
