ہر سال نوبل پرائزز کے اعلان کا دن عالمی سطح پر خاص اہمیت رکھتا ہے اور امن کا نوبل انعام سب سے زیادہ توجہ حاصل کرتا ہے۔ اس سال بھی توقع کی جا رہی ہے کہ امن کے نوبل انعام کا اعلان آج کیا جائے گا۔ امریکہ کے سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا نام ممکنہ امیدواروں میں شامل ہے اور یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا وہ واقعی اس عالمی اعزاز کے حق دار ٹھہریں گے۔ ٹرمپ کی صدارت کے دوران ان کی خارجہ پالیسی اور عالمی تعلقات نے متضاد آراء پیدا کیں۔ کچھ لوگ انہیں امن کے فروغ کا حامی سمجھتے ہیں جبکہ دوسرے انہیں عالمی سطح پر تنازعات کو بڑھانے والا رہنما قرار دیتے ہیں۔ ان کے دور میں مشرق وسطیٰ میں معاہدے اور چند امن مذاکرات ضرور ہوئے لیکن ان کے ساتھ کئی تنازعات بھی جنم لیتے رہے۔
اس پس منظر میں یہ سوال اہم بن جاتا ہے کہ نوبل کمیٹی ان کے اقدامات کو امن کے فروغ کی کوشش سمجھے گی یا سیاسی مفادات کے لیے کیے گئے فیصلے۔ یہی عنصر اس فیصلے کو عالمی دلچسپی کا مرکز بناتا ہے۔
ٹرمپ کی ممکنہ نامزدگی اور امکانات
ٹرمپ کی نامزدگی ممکنہ طور پر ان کی خارجہ پالیسی اور امن مذاکرات میں کردار کی بنیاد پر زیر غور ہے۔ ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے مشرق وسطیٰ میں تاریخی معاہدوں میں کردار ادا کیا جبکہ ناقدین کا مؤقف ہے کہ ان کے بیشتر اقدامات نے عالمی سیاست میں تقسیم کو بڑھایا۔ ان کے دور حکومت میں پیرس کلائمٹ معاہدہ سے علیحدگی، ایران ایٹمی معاہدے کا خاتمہ اور چین کے ساتھ تجارتی کشیدگی جیسے اقدامات نے ان کی عالمی شبیہ پر اثر ڈالا۔ ایسے میں یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ نوبل کمیٹی انہیں امن کے علمبردار کے طور پر دیکھے گی یا نہیں۔
اگرچہ ٹرمپ کی نامزدگی ممکن ہے مگر ان کے لیے یہ انعام حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ نوبل کمیٹی عام طور پر ان شخصیات کو ترجیح دیتی ہے جن کی خدمات انسانی مفاہمت اور عالمی امن کے فروغ میں نمایاں کردار رکھتی ہیں
پی ایس ایل کا اگلا سیزن 2 اضافی ٹیموں کیساتھ اپریل مئی میں ہونیکا امکان
انتخابی کمیٹی کا معیار اور ماضی کی مثالیں
نوبل امن انعام دینے والی کمیٹی ہمیشہ ایسے افراد یا اداروں کا انتخاب کرتی ہے جنہوں نے عالمی سطح پر دیرپا اور مثبت اثرات چھوڑے ہوں۔ صرف وقتی یا سیاسی نوعیت کے اقدامات عموماً اس معیار پر پورے نہیں اترتے۔ ماضی میں ملالہ یوسفزئی، اقوام متحدہ اور جنوبی افریقہ کے امن رہنماؤں کو اس ایوارڈ سے نوازا گیا جنہوں نے انسانیت اور ہم آہنگی کے فروغ میں حقیقی خدمات انجام دیں۔ اگر ٹرمپ کی کسی پالیسی یا اقدام نے عالمی سطح پر امن اور استحکام پیدا کیا ہو تو کمیٹی اس پر غور کر سکتی ہے لیکن انہیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ان کے فیصلے سیاسی مفادات کے بجائے عالمی مفاہمت کے لیے کیے گئے تھے۔
امن کے نوبل انعام کا فیصلہ ہمیشہ محتاط انداز میں کیا جاتا ہے اور یہ صرف ایک شخصیت کے اثر و رسوخ پر نہیں بلکہ ان کے حقیقی کردار اور اثرات پر مبنی ہوتا ہے۔ اس سال کا اعلان دنیا بھر کے لیے ایک نیا باب ثابت ہو سکتا ہے۔