Nigah

بھارتی فوج میں خودکشیوں کی بڑھتی شرح

بھارتی فوج میں خودکشیوں کی تشویشناک شرح، اعداد و شمار چیخ اٹھے

بھارت کی افواج کا شمار دنیا کی سب سے بڑی افواج میں ہوتا ہے۔ اس وقت تقریباً 14 لاکھ سے زائد اہلکار بھارتی افواج میں ہیں لیکن اس طاقتور فوج کے پیچھے ایک ایسا خاموش المیہ پنپ رہا ہے جو کسی جنگ سے کم نہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پچھلی ایک دہائی کے دوران ہزاروں بھارتی فوجی ذہنی دباؤ، صدمات، اور ناروا سلوک کے باعث خودکشی کر چکے ہیں جبکہ درجنوں اہلکار فوج سے فرار ہو چکے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف بھارتی فوج کے اندرونی ڈھانچے کی ناکامی کو ظاہر کرتی ہے بلکہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ بھارت کی عسکری قیادت اپنے جوانوں کی ذہنی صحت کے معاملے میں مجرمانہ غفلت کی مرتکب ہو رہی ہے۔

بھارت کے دفاعی اداروں میں ذہنی صحت سے متعلق مسائل پر بات کرنا اب بھی ایک ممنوع موضوع سمجھا جاتا ہے۔ رپورٹس کے مطابق 2010 سے 2019 کے درمیان 1100 سے زائد بھارتی فوجی اہلکاروں نے خودکشی کی۔ یہ تعداد کسی جنگ یا بیرونی حملے سے ہونے والے نقصانات سے کہیں زیادہ ہے، جو ظاہر کرتی ہے کہ اصل دشمن بیرونی نہیں بلکہ اندرونی دباؤ اور صدمے ہیں۔

سیاسی ماہرین کے مطابق 2013 سے 2020 کے دوران مزید 800 فوجی، بحریہ اور فضائیہ کے اہلکار خودکشی کے باعث اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ یہ خطرناک رجحان بتاتا ہے کہ بھارتی افواج میں ذہنی دباؤ ایک منظم اور مستقل بحران کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2014 سے 2024 کے درمیان بھارتی آرمی میں 983، بحریہ میں 96 اور فضائیہ میں 246 اہلکاروں نے خودکشی کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر تیسرے دن ایک فوجی یا تو خودکشی کر رہا ہے یا اپنے ہی ساتھی کے ہاتھوں مارا جا رہا ہے۔ یہ اعداد و شمار کسی بھی مہذب فوجی ادارے کے لیے شرمناک اور خوفناک ہیں۔

بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا (راجیہ سبھا) میں جولائی 2022 میں وزیرِ مملکت برائے دفاع اجے بھٹ نے تسلیم کیا تھا کہ پچھلے پانچ برسوں میں بری فوج میں 642، فضائیہ میں 148، اور بحریہ میں 29 اہلکاروں نے خودکشی کی۔ یہ وہ سرکاری اعداد و شمار ہیں جو منظرِ عام پر آئے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

بھارتی میڈیا، بالخصوص ٹائمز آف انڈیا کے مطابق سرحدی علاقوں میں تعیناتی، مقبوضہ جموں و کشمیر اور شمال مشرقی ریاستوں میں جاری انسداد بغاوت کارروائیاں اہلکاروں کے لیے شدید ذہنی صدمات کا باعث بن رہی ہیں۔ کئی فوجی ایسے علاقوں میں سالہا سال تعینات رہتے ہیں جہاں انہیں نہ مناسب آرام ملتا ہے، نہ گھریلو رابطہ، اور نہ ہی نفسیاتی مدد۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر فوجی احساسِ تنہائی، خوف، محرومی اور بے مقصدی کا شکار ہو جاتے ہیں، جبکہ بھارتی فوج کا نظامِ قیادت اس مسئلے کو "کمزوری” سمجھتا ہے اور اہلکاروں کو خاموش رہنے پر مجبور کرتا ہے۔

محسوس کردہ ذلت
Source: Observer Guardian

بھارت کے ڈیفنس انسٹی ٹیوٹ آف سائیکالوجیکل ریسرچ (DIPR) کی ایک تحقیق کے مطابق فوجیوں کی خودکشی کی بڑی وجوہات میں "محسوس کردہ ذلت”، ہراسانی اور افسران کا غیر انسانی رویہ شامل ہیں۔ یہ تحقیق بتاتی ہے کہ پیشہ ورانہ دباؤ کے ساتھ ساتھ اہلکاروں کو ذاتی اور خاندانی سطح پر بھی دباؤ کا سامنا ہوتا ہے۔ جب یہ دباؤ بڑھتا ہے تو اکثر فوجی اپنے سینئر افسران کی بدسلوکی یا مسلسل توہین برداشت نہیں کر پاتے اور اپنی جان لینے کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔

یہ صورتحال اس وقت مزید سنگین ہو جاتی ہے جب فوجی اہلکاروں کی شکایات سننے کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں۔ نہ کوئی آزاد عدالتی فورم ہے، نہ کوئی نفسیاتی سہولت۔ نتیجتاً مایوسی خودکشی میں بدل جاتی ہے۔

مقبوضہ جموں و کشمیر میں تعینات بھارتی فوجیوں کے لیے حالات نہ صرف خطرناک بلکہ نفسیاتی اذیت سے بھرپور ہیں۔ وہاں انہیں عام شہریوں کے خلاف کارروائیاں کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ عمل ان کے ضمیر اور اخلاقیات پر گہرا زخم چھوڑتا ہے۔ رپورٹس کے مطابق کئی فوجیوں نے کشمیری عوام پر مظالم کے احکامات ماننے سے انکار کیا اور بعد ازاں سزا یا نفسیاتی دباؤ کے باعث فورس چھوڑ دی۔

کئی اہلکاروں نے بیان دیا کہ وہ روزانہ بے گناہ شہریوں پر گولیاں چلانے پر مجبور کیے جاتے تھے جس سے ان کے ذہنوں میں پشیمانی اور جرم کا احساس بیٹھ گیا۔

اسی جرم ضمیر نے کئی سپاہیوں کو یا تو خودکشی پر مجبور کیا یا فوج سے فرار ہونے پر۔

بھارتی فوج میں نچلے درجے کے سپاہیوں کے ساتھ افسران کا ظالمانہ رویہ معمول بن چکا ہے۔ سینئر افسران کی طرف سے مسلسل ہراسانی، غیر ضروری ڈیوٹیاں اور چھٹی کی عدم فراہمی اہلکاروں کے لیے برداشت سے باہر ہو گئی ہے۔ کئی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ پیرا ٹروپرز اور فرنٹ لائن فورسز کے اہلکاروں نے افسران کی گالی گلوچ، توہین آمیز برتاؤ اور ناقص خوراک کے باعث فورس چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ یہ نظام اس قدر بے رحم ہو چکا ہے کہ فوجیوں کو اپنی انسانی عزت کے بدلے محض ڈسپلن کے نام پر خاموش کرا دیا جاتا ہے۔

ایک اور تشویشناک پہلو یہ ہے کہ بھارتی حکومت دفاعی بجٹ میں مسلسل اضافہ کر رہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود فوجی اہلکاروں کی بنیادی ضروریات پوری نہیں ہو رہیں۔ سرحدوں پر تعینات سپاہیوں کو اکثر غیر معیاری راشن، پرانا اسلحہ اور ناقص طبی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ عدم توازن فوجیوں کے اندر مایوسی، احساسِ محرومی اور غصے کو بڑھاتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب بھارت اربوں ڈالرز کے ہتھیار خرید رہا ہے، اس کے اپنے فوجی بھوک، ذہنی دباؤ، اور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔

حالیہ برسوں میں بھارتی فوج میں بھگوڑے پن کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ مقبوضہ کشمیر اور شمال مشرقی ریاستوں میں تعینات کئی اہلکار غیر قانونی طور پر اپنی یونٹس چھوڑ کر بھاگ گئے۔ یہ اہلکار اپنے خاندانوں یا مقامی پولیس کے ذریعے گرفتاری سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کئی رپورٹوں میں انکشاف ہوا ہے کہ وہ افسران کے ناروا سلوک اور ناقابلِ برداشت دباؤ کے باعث ایسا کرتے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف فوج کے ڈسپلن کے لیے خطرناک ہے بلکہ بھارت کے دفاعی اداروں کے مورال کو بھی شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی فوجی قیادت نے ہمیشہ خودکشیوں اور بھگوڑے پن کے واقعات کو "انفرادی مسئلہ” قرار دے کر نظر انداز کیا۔ حقیقت میں یہ ادارہ جاتی ناکامی ہے — ایک ایسا بحران جو بہتر قیادت، نفسیاتی مدد اور انسانی سلوک کے ذریعے روکا جا سکتا تھا۔ افسوس کہ بھارتی فوجی نظام میں انسانی عنصر کی قدر نہیں۔ جہاں مشینیں، بندوقیں اور ٹیکنالوجی کی اہمیت بڑھ گئی ہے، وہاں فوجی جوان کی ذہنی صحت کو ثانوی حیثیت دے دی گئی ہے۔

بھارتی فوج کو بیرونی دشمن سے زیادہ خطرہ اپنے اندرونی انتشار، ذہنی دباؤ اور غیر انسانی رویوں سے ہے۔ یہ وہ فوج ہے جو دنیا کے سامنے “سب سے بڑی جمہوریت کے محافظ” کہلانا چاہتی ہے، لیکن اپنے ہی سپاہیوں کو عزت، سکون اور انصاف فراہم نہیں کر پاتی۔ بھارت کے لیے یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ وہ اپنے فوجی نظام کو محض طاقت کے مظاہرے سے نکال کر انسانی ہمدردی اور نفسیاتی استحکام کی راہ پر لائے، ورنہ وہ دن دور نہیں جب بھارتی فوج اپنے ہی ہاتھوں اخلاقی اور نفسیاتی تباہی کا شکار ہو جائے گی۔

اعلان دستبرداری
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • ڈاکٹر حسین جان

    حسین جان کے علمی مفادات بین الاقوامی سلامتی، جغرافیائی سیاسی حرکیات، اور تنازعات کے حل میں ہیں، خاص طور پر یورپ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے۔ انہوں نے عالمی تزویراتی امور سے متعلق مختلف تحقیقی فورمز اور علمی مباحثوں میں حصہ ڈالا ہے، اور ان کا کام اکثر پالیسی، دفاعی حکمت عملی اور علاقائی استحکام کو تلاش کرتا ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔