Nigah

بھارتی میڈیا کا انتقامی چہرہ ایک امریکی خاتون کے خلاف کردار کشی کی مہم

jahuriat india

بھارت جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، آج مذہبی انتہا پسندی، ریاستی تشدد اور میڈیا کے زہریلے پروپیگنڈے کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ امریکی شہری جیمز واٹسن کی گرفتاری اور ان کی اہلیہ کے خلاف بھارتی میڈیا کی بدترین مہم نے اس تاثر کو تقویت دی ہے کہ بھارت میں نہ صرف اقلیتیں بلکہ غیر ملکی شہری بھی اب عدم رواداری اور نفرت کے نشانے پر ہیں۔ یہ واقعہ محض ایک فرد یا خاندان کی آزمائش نہیں بلکہ ایک ایسے نظام کی علامت ہے جو "قوم پرستی” کے نام پر انصاف، قانون، اور انسانی اقدار کو روند چکا ہے۔ واٹسن کی اہلیہ کو نشانہ بنا کر بھارتی میڈیا نے یہ واضح کر دیا کہ وہاں صحافت نہیں بلکہ پروپیگنڈا انڈسٹری کام کر رہی ہے جو جھوٹ کو سچ اور ظلم کو حب الوطنی کے رنگ میں پیش کرتی ہے۔

اگست 2025 میں امریکی شہری جیمز واٹسن کو بھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں مذہبی تبدیلی کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا۔ مبینہ طور پر ان پر الزام تھا کہ وہ مقامی افراد کو عیسائیت قبول کرنے پر مجبور کر رہے ہیں، حالانکہ تحقیقات کے دوران کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا جا سکا۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ بھارت میں ایسے الزامات کا استعمال ریاستی اور سیاسی ہتھیار کے طور پر کیا گیا ہو۔ بھارت کے کئی صوبوں میں "جبری تبدیلیٔ مذہب” کے نام پر بنائے گئے قوانین کو اقلیتوں، خاص طور پر عیسائیوں اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان قوانین کے ذریعے مذہبی اجتماعات پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں، عبادت گاہوں پر حملے کیے جاتے ہیں اور اقلیتوں کو محض شک کی بنیاد پر گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ واٹسن کے کیس نے یہ واضح کر دیا کہ بھارت میں مذہبی آزادی کا حق اب صرف ہندو اکثریت تک محدود ہوتا جا رہا ہے۔ یہ گرفتاری نہ صرف بین الاقوامی انسانی حقوق کے اصولوں کے منافی ہے بلکہ بھارت کے آئین کے آرٹیکل 25 (مذہب کی آزادی) کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔

جیمز واٹسن کی گرفتاری کے بعد بھارتی میڈیا نے ان کی اہلیہ کے خلاف ایک منافقانہ اور خوفناک مہم شروع کر دی۔ ٹی وی چینلز اور اخبارات نے انہیں "غیر ملکی جاسوس”، "مسیحی مبلغ” اور "بھارت مخالف ایجنٹ” جیسے القابات سے نوازا۔ بغیر کسی ثبوت کے ان کے ذاتی کردار، مذہب اور ازدواجی زندگی کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ مہم اس قدر شدت اختیار کر گئی کہ ان کی اہلیہ کو دھمکیاں ملنے لگیں، سماجی بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا اور میڈیا رپورٹرز ان کے گھر کے باہر کیمپ لگا کر انہیں غدار ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا تھا جب عدالت میں کیس کی کوئی سماعت مکمل نہیں ہوئی تھی۔ یہ مظاہرہ تھا اس پری ٹرائل میڈیا انصاف کا جو بھارت میں اب عام ہو چکا ہے، جہاں عدلیہ سے پہلے میڈیا کسی کو مجرم قرار دے دیتا ہے۔ اس واقعے نے بھارتی میڈیا کے زوال کی حدوں کو آشکار کیا۔ ایک وقت تھا جب بھارتی صحافت کو جمہوریت کا محافظ کہا جاتا تھا مگر آج وہ ریاستی پروپیگنڈے کا اوزار بن چکی ہے، جہاں "حقائق” نہیں بلکہ بی جے پی کے بیانیے فروخت کیے جاتے ہیں۔

واٹسن کیس بھارت میں اقلیتوں کے خلاف جاری ریاستی جبر کا تسلسل ہے۔ مودی حکومت کے دور میں عیسائی مشنریوں پر پابندیاں عائد کی گئیں، مسلم کارکنوں کو بغاوت کے مقدمات میں پھنسایا گیا اور غیر ملکی امدادی اداروں کے لائسنس منسوخ کیے گئے۔ یہ سب ایک منظم منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے تاکہ بھارت کی مذہبی شناخت کو ہندو راشٹر کی شکل دی جا سکے۔ ریاستی ادارے یعنی پولیس، عدلیہ اور بیوروکریسی سب ایک خاص نظریے کے تابع دکھائی دیتے ہیں۔ واٹسن کیس میں بھی پولیس نے بغیر وارنٹ گرفتاری عمل میں لائی اور میڈیا کے دباؤ پر کیس کو سیاسی رنگ دے دیا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں بھارت کا جمہوری توازن مکمل طور پر بکھر گیا ہے۔ اقلیتیں، دانشور حتیٰ کہ غیر ملکی بھی اب ریاستی انتقام سے محفوظ نہیں رہے۔

india gold
Source: Avashai L Watson

بھارت میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کے باوجود، عالمی برادری کی جانب سے مؤثر ردعمل نہ ہونے کے برابر ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے صرف ایک روایتی بیان جاری کیا، جبکہ اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے اب تک کوئی باضابطہ کارروائی نہیں کی۔ یہ خاموشی بھارت کو مزید بے خوف بنا رہی ہے۔ واٹسن کیس دراصل ایک انسانی حقوق کا بحران ہے، جہاں ایک غیر ملکی شہری اور اس کا خاندان صرف اس لیے نشانہ بنا کہ ان کا تعلق ایک مختلف مذہبی شناخت سے تھا۔

یہ معاملہ عالمی قوانین جیسے کہ یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس (آرٹیکل 18) اور انٹرنیشنل کانونینٹ آن سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس (آرٹیکل 27) کی بھی خلاف ورزی ہے جو مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے تحفظ کو ہر ملک کی ذمہ داری قرار دیتے ہیں۔

واٹسن کیس اور ان کی اہلیہ کے خلاف میڈیا مہم نے واضح کر دیا کہ بھارت میں قوم پرستی اب انسانیت دشمن نظریے میں بدل چکی ہے۔ آج بھارت میں محبِ وطن وہی ہے جو حکومت کے بیانیے سے اتفاق کرے اور غدار وہ جو سوال اٹھائے یا کسی مختلف مذہب سے تعلق رکھے۔ یہ قوم پرستی نہیں بلکہ تعصب کی آمریت ہے۔ اس نظام میں صحافت وفاداری کی امتحان گاہ بن گئی ہے، قانون مذہب کے تابع کر دیا گیا ہے اور انصاف طاقتور کے ہاتھوں کا کھلونا بن گیا ہے۔

یہ صورتِ حال بھارت کے آئینی اصول "سب کے لیے برابری” کی نفی ہے۔ واٹسن کی اہلیہ کی کردار کشی اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت میں غیر ملکی ہونا بھی جرم بن چکا ہے اگر آپ کا مذہب یا نظریہ اکثریت سے مختلف ہو۔

کسی بھی جمہوریت کی بقاء اس کے آزاد اور ذمہ دار میڈیا پر ہوتی ہے، لیکن بھارت میں میڈیا کا کردار اب جمہوری نگرانی کے بجائے سیاسی غلامی بن چکا ہے۔ ریاستی مفادات کے تحفظ کے نام پر جھوٹ پھیلانا، مذہبی نفرت کو ہوا دینا اور مخالف آوازوں کو خاموش کرنا اب عام معمول ہے۔ واٹسن کیس میں میڈیا نے ایک امریکی خاتون کو ذاتی حملوں، تضحیک اور الزامات کی آندھی میں گھسیٹا اور اس سب کے ذریعے عوام کی توجہ بھارت کے اصل مسائل یعنی مہنگائی، بیروزگاری، اور غربت سے ہٹا دی۔ یہ وہی نفسیاتی ہتھیار ہے جو ہر مطلق العنان حکومت استعمال کرتی ہے کہ کسی دشمن کو تراش لو اور عوام کو نفرت میں مصروف رکھو۔

جیمز واٹسن اور ان کی اہلیہ کا کیس بھارت کے لیے ایک اخلاقی آئینہ ہے۔ یہ واقعہ دنیا کو یہ دکھا رہا ہے کہ بھارت کی جمہوریت کس طرح مذہبی تعصب، قوم پرستی، اور میڈیا پروپیگنڈے کے بوجھ تلے دم توڑ رہی ہے۔ ایک ایسا ملک جو خود کو عالمی سطح پر رواداری اور جمہوریت کا چیمپئن قرار دیتا ہے، آج اپنے ہی آئینی اصولوں کی خلاف ورزی کر کے غیر ملکی شہریوں کو ہراساں کر رہا ہے۔ یہ صرف ایک خاندان کی کہانی نہیں بلکہ بھارت کے انسانی ضمیر کے زوال کی کہانی ہے۔

اگر بھارت واقعی ایک ذمہ دار اور جمہوری ملک بننا چاہتا ہے تو اسے اپنے میڈیا اور اداروں کو مذہبی و سیاسی اثر سے آزاد کرنا ہوگا۔ بین الاقوامی برادری کو بھی اب محض تماشائی بننے کے بجائے بھارت کی ان پالیسیوں پر آواز اٹھانی چاہیے جو انسانی آزادی اور مذہبی رواداری کے اصولوں کے منافی ہیں۔ جیمز واٹسن اور ان کی اہلیہ کا المیہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جب میڈیا جھوٹ کا ہتھیار بن جائے تو سب سے پہلے انسانیت ہارتی ہے، انصاف دفن ہوتا ہے اور سچائی کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔

اعلان دستبرداری
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • ڈاکٹر مزمل خان

    مزمل خان سیاست اور بین الاقوامی معاشیات میں گہری دلچسپی کے ساتھ، ان کا تعلیمی کام اس بات کی کھوج کرتا ہے کہ کس طرح بنیادی ڈھانچہ اور جغرافیائی سیاسی حرکیات تجارتی راستوں اور علاقائی تعاون کو متاثر کرتی ہیں، خاص طور پر جنوبی اور وسطی ایشیا میں۔ موزممل شواہد پر مبنی تحقیق کے ذریعے پالیسی مکالمے اور پائیدار ترقی میں حصہ ڈالنے کے لیے پرجوش ہے اور اس کا مقصد تعلیمی انکوائری اور عملی پالیسی سازی کے درمیان فرق کو ختم کرنا ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔