بھارتی ریاست ہریانہ کے بہادر اور فرض شناس آئی پی ایس افسر وائی پورن کمار، جن کا تعلق دلت ذات سے ہے، نے طویل عرصے تک ذات پات کی بنیاد پر امتیاز، ذہنی اذیت اور ریاستی جبر برداشت کرنے کے بعد خودکشی کر لی۔ یہ نہ صرف ایک المیہ ہے بلکہ اس نظامِ برتری اور ریاستی سرپرستی میں موجود ذات پات کی تقسیم کو عیاں کرنے کا دستاویزی ثبوت بھی ہے، جسے آئندہ نسلیں نظر انداز نہیں کر سکتیں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور فرض شناس افسر جو اپنی شناخت، خاندان اور سرکاری عہدے کی حیثیت کے باوجود مسلسل ذہنی اذیت، تضحیک اور منظم مظالم کا شکار ہو، اس فرد کی موت محض ایک واقعہ نہیں بلکہ ان ادارتی شکنجوں کی علامت ہے جنہوں نے دلت اور پسماندہ طبقات کو ایوانِ اقتدار میں بھی انسانی وقار سے محروم رکھا ہوا ہے۔
یہ واقعہ 7 اکتوبر 2025 کو پیش آیا جب پورن کمار نے اپنی رہائش گاہ میں خودکشی کی۔
انہوں نے بارہا اپنے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کے خلاف آواز اٹھائی اور شکایات درج کرائیں مگر بی جے پی اور آر ایس ایس کے زیرِ اثر ہریانہ کے ڈی جی پی شترو جیت کپور اور روہتک پولیس چیف نریندر بیجارنیہ جیسے افسران نے ان فریادوں کو دبانے کے لیے انتقامی کارروائیاں کیں، بیمار والد کی عیادت کے لیے چھٹی دینے سے انکار کیا، عوامی تذلیل کی، اور انہیں غیر اعلانیہ طور پر بلیک لسٹ کر دیا۔ یہ مسلسل ظلم و ذلت اس حد تک پہنچ گئی کہ ایک فرض شناس افسر اپنی زندگی سے مایوس ہو گیا۔
پورن کمار نے اپنے ایک طویل فائنل نوٹ میں اعلیٰ پولیس افسروں کے خلاف اذیت اور ذات پات کی بنیاد پر ہونے والے مظالم کا ذکر کیا۔
بھارت میں ذات پات صرف دیہات یا غیر تعلیم یافتہ حلقوں کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ زہر آج اعلیٰ انتظامی اداروں میں تک سرایت کر چکا ہے۔ جب ریاستی طاقت کے محافظ خود تعصب کے شکنجے میں پھنس جائیں تو عام شہری کہاں جائیں۔ اعلیٰ افسران کے خلاف شکایات کے باوجود مناسب تفتیش اور کارروائی نہ ہونا، ریاستی شمولیت کی سب سے واضح دلیل ہے۔
خاندان اور سماجی تنظیموں نے اعلیٰ حکام کے خلاف سخت ردِعمل ظاہر کیا اور فوری انصاف کا مطالبہ کیا۔ یہ احتجاج محض جذباتی ردِعمل نہیں بلکہ ایک طویل عرصے سے دبائی گئی آواز ہے۔ بی جے پی کی ہندوتوا سیاست اور آر ایس ایس کی منو وادی ذہنیت نے بھارت کے سماجی ڈھانچے کو پراگندہ کر دیا ہے، جہاں دلت طبقہ حتی کہ اشرافیہ کے اداروں میں بھی تحفظ اور وقار سے محروم ہے۔
یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ مذکورہ نوٹ میں نام لیے گئے اعلیٰ پولیس افسروں کے خلاف شکایات اور بعد ازاں درج ایف آئی آر نے معاملے کو سیاسی بحران میں بدل دیا۔ اپوزیشن جماعتوں، سماجی کارکنوں اور دلت حقوق کی تنظیموں نے حکومت پر سخت تنقید کی اور فوری کارروائی کا مطالبہ کیا۔ خاندان نے عدالتی کارروائی اور تفتیش میں شفافیت کی ضرورت پر زور دیا۔ بعض ذرائع کے مطابق پوسٹ مارٹم اور ڈیجیٹل شواہد تک رسائی سے انکار کر کے اہلِ خانہ نے ریاستی تحقیقات پر عدم اعتماد ظاہر کیا۔
عوامی ردِعمل اور احتجاج نے ثابت کر دیا کہ یہ معاملہ محض ایک فرد کی موت نہیں بلکہ ایک اجتماعی انصاف کی جدوجہد ہے۔
انتہا پسند بی جے پی کا ایجنڈا مذہبی اقلیتوں تک محدود نہیں بلکہ نچلی ذات کے ہندوؤں خصوصاً دلتوں کے خلاف تشدد کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ بلڈوزر جسٹس کے نام پر گھروں کو منہدم کرنا، پولیس تشدد کو حب الوطنی کا نام دینا، اور اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلانا مودی سرکار کے سیاسی ہتھیار ہیں۔ دلت ججز، افسران اور رہنماؤں کو سرِ عام ذلیل کیا جا رہا ہے۔
کانگرس اور عام آدمی پارٹی کے رہنماؤں نے بی جے پی کو براہِ راست اس سانحے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ کانگرس کے صدر ملکار جن کھڑگے نے بی جے پی کی جاگیردارانہ ذہنیت کو بھارت میں دلتوں کے خلاف بڑھتے مظالم کی اصل جڑ قرار دیا۔ راہل گاندھی نے کہا کہ بی جے پی آر ایس ایس کی منو وادی سوچ نے سماج میں زہر گھول دیا ہے، اور یہ وہی زہر ہے جس کے نتیجے میں دلت افسر، طلبہ اور رہنما مسلسل نشانہ بن رہے ہیں۔
بھارت میں ہری یوم والمیکی کے قتل، چیف جسٹس بی آر گوائی پر جوتا پھینکنے اور پورن کمار کی خودکشی جیسے واقعات اس نفرت انگیز نظام کی علامت ہیں۔ گزشتہ دہائی میں بی جے پی کے دورِ حکومت میں دلتوں کے خلاف جرائم میں 46 فیصد اضافہ خود اس نظام کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔
بی جے پی کے امبیڈکر کے نظریات سے وفاداری کے دعوے کھوکھلے ثابت ہو چکے ہیں کیونکہ ان کے دورِ اقتدار میں ذات پات کی بنیاد پر تشدد نے ریکارڈ سطح اختیار کر لی ہے۔ عالمی سطح پر اور مہذب معاشروں میں اقلیتوں کے ساتھ بھارتی رویہ انسانی حقوق اور مساوات کی سنگین خلاف ورزیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
اگر مقتدرہ عناصر کے خلاف موثر کارروائی اور احتساب ممکن نہ بنایا گیا تو آئندہ بہت سے اہل اور محنتی افسران اپنی آواز دبانے پر مجبور ہوں گے۔ عدالت، تفتیشی ادارے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں مل کر شفاف تفتیش اور متاثرہ خاندانوں کے ساتھ مکمل تعاون کو یقینی بنائیں۔ اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کا تحفظ ایک مضبوط اور منصفانہ معاشرے کی بنیاد ہے۔
بین الاقوامی اداروں کو چاہیے کہ وہ ایسے واقعات پر خاموشی اختیار نہ کریں بلکہ واضح، مربوط اور مستقل دباؤ ڈالیں تاکہ بھارت میں ریاستی سطح پر ہونے والی زیادتیوں کا تسلسل روکا جا سکے۔
پورن کمار کی موت ہمیں اس دردناک سبق سے متنبہ کرتی ہے کہ کسی بھی قوم کی عظمت اس کے اداروں کی کارکردگی اور شہریوں کے وقار کے تحفظ سے جڑی ہوتی ہے۔ جب ریاست خود ان اصولوں کو پامال کرے جن کی وہ محافظ ہے، تو آئندہ نسلوں کے لیے انصاف کا سفر انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔
پورن کمار کی موت ایک بیداری کی نوید ہو سکتی ہے، اگر بین الاقوامی برادری، سول سوسائٹی اور مقامی عوام مل کر اس نظام کو توڑنے میں سنجیدہ ہوں تو یہی سانحہ ایک نئے عہد کا آغاز بن سکتا ہے، جہاں ذات پات کی بنیاد پر ہونے والا استحصال کبھی رائیگاں نہ جائے گا۔
جو انصاف اور مساوات کے ہر تصور کو کچل رہی ہے۔ یہ بھارت کے ان با ضمیر لوگوں کے لیے پکار ہے جو وقار اور مساوات کے لیے لڑنا چاہتے ہیں۔ اب وقت ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے فسطائی منو وادی نظام کے خلاف عوامی مزاحمت کا آغاز ہو، اداروں سے ذات پرستی کے زہر کو اکھاڑ پھینکا جائے، اور ایسا نظام قائم کیا جائے جہاں کسی کو اپنی ذات کی وجہ سے مرنے پر مجبور نہ ہونا پڑے۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
مصنف ایک معزز میڈیا پیشہ ور ہیں جو نیشنل نیوز چینل ایچ ڈی کے چیف ایگزیکٹو اور "دی فرنٹیئر انٹرپشن رپورٹ" کے ایگزیکٹو ایڈیٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ان سے پر رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔
View all posts