Nigah

بھارت میں پروپیگنڈا طاقت اور بیرونی خطرہ کی پالیسی

پروپیگنڈا اور طاقت کا امتزاج بھارت میں بیرونی خطرہ بنانے کی ریاستی پالیسی
[post-views]

بیانیہ سازی، خوف کی صنعت اور سیاسی منطق یہ تین عناصر اس وقت بھارتی سیاسی منظر نامے میں بار بار دہرائے جا رہے ہیں۔ 22 اپریل 2025 کو پہلگام واقعے کے بعد سے نئی دہلی میں جو حکمت عملی اپنائی گئی ہے وہ واضح طور پر اندرونی سیاسی بحران، سماجی اختلاف اور بڑھتی ہوئی عوامی ناراضگی کو بیرونی داغ یعنی پاکستان کے گرد مرکوز کرنے کی کوشش ہے۔ اس مضمون میں ہم اس پالیسی کے مختلف زاویے، اس کے منطقی نتائج اور خطے پر اس کے اثرات پر غور کریں گے۔

مودی سرکار کی حکمت عملی کا بنیادی ستون یہ رہا ہے کہ کسی بھی بڑے یا چھوٹے سکیورٹی واقعے کو فوراً بغیر مکمل شواہد کے پاکستان سے جوڑ دیا جائے۔ چاہے کشمیر کا بڑا حملہ ہو یا لداخ میں مقامی احتجاج۔ میڈیا، سرکاری بیانات اور بعض اوقات تحقیقاتی ادارے ایک ہی سمت میں چلتے دکھائی دیتے ہیں۔ "یہ سرحد پار کارروائی ہے” یا "یہ پاکستان کی حمایت یافتہ سازش ہے”۔ ایسے بیانیے عوامی رد عمل کو یک سمت کر دیتے ہیں اور حکومت کو اندرونی سوالات سے عارضی نجات مل جاتی ہے۔

جب بھی معیشت مدہم پڑے، بے روزگاری بڑھے یا احتجاج میں اضافہ ہو جائے
تو حکومت کے لیے سب سے آسان راستہ یہ ہوتا ہے کہ توجہ بیرونی خطرے کی طرف موڑ دی جائے۔

پاکستان کو ہمہ وقت دشمن قرار دے کر قوم کو یکجا کرنا، سخت سکیورٹی اقدامات کے لیے جواز پیدا کرنا اور مختلف آوازوں کو غداری یا دھمکی کے دائرے میں دبا دینا۔ یہ سیاسی فائدے ہیں جن کا مودی سرکار نے بارہا استعمال کیا ہے۔

سونم وانگچک کا معاملہ اس حکمت عملی کی نمایاں مثال ہے۔ جہاں وانگچک مقامی عوامی مطالبات یعنی روزگار، زمین اور آئینی حیثیت کی بات کر رہے تھے، حکومت نے انہیں غیر ملکی ایجنٹ اور پاکستانی سرپرستی والے عناصر کے طور پر پیش کیا۔ اس طرح مقامی مطالبات کو بیرونی سازش میں بدل کر ریاستی طاقت کا جواز پیش کیا گیا اور حقیقی سیاسی بحث ختم کر دی گئی۔

بیرونی خطرے کے بیانیے نے بھی سماجی تقسیم کو ہوا دی ہے۔ جب پاکستان نواز یا غدار جیسے لیبلز کسی اجتماعی احتجاج پر چسپاں کر دیے جاتے ہیں تو مقامی اقلیتیں مزید کمزور اور غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں۔ پولیس کریک ڈاؤن، گرفتاریوں اور زبردستی انخلا کی کارروائیاں اکثر اسی بیانیہ کے تحت جواز پاتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آزاد رائے، انسانی حقوق اور شہری تحفظ کے قومی معیارات متاثر ہوئے ہیں۔

نسلی یا علاقائی مساوات

مودی حکومت نے FCRA جیسے قوانین کے تحت کئی این جی اوز اور نگرانی کرنے والی تنظیموں پر پابندی لگا کر انہیں معاشی طور پر پھنسایا۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ یہ ادارے غیر ملکی فنڈنگ کے ذریعے ملک کے اندرونی حالات خراب کر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں وہ آوازیں جو شہری حقوق، نسلی یا علاقائی مساوات کی وکالت کرتی ہیں، خاموش کر دی جاتی ہیں یا بدنام کر دی جاتی ہیں۔

آئیے ایمانداری سے دیکھیں، جب روزگار کے مواقع کم ہوں، عوامی خدمات ناکافی ہوں، صحت اور تعلیم کے شعبے بحران کا شکار ہوں تو اس سب سے توجہ ہٹانے کے لیے بیرونی خطرے کا بیانیہ ایک آسان راستہ فراہم کرتا ہے۔ عوامی غصے کو بیرونی دشمن کے خلاف جہتی میں تبدیل کر دینا سیاست کا وہ قدیم کھیل ہے جو آج نئی دہلی میں کھیلا جا رہا ہے۔ اس سے اصل مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ وہ مزید گہرے ہو جاتے ہیں۔

مودی حکومت نے عالمی فورمز پر بھی پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔ سفارتی تعلقات میں رکاوٹیں، تجارتی پابندیاں، ایف اے ٹی ایف جیسے فورمز میں دباؤ ڈالنا اس حکمت عملی کا حصہ ہے۔ لیکن بین الاقوامی سطح پر یہ چال طویل المدت میں کارآمد ثابت نہیں ہوتی۔ منصفانہ تحقیق، شواہد کی مانگ اور متبادل پیشکشیں ایک وقت کے بعد حقیقت کو آشکار کرتی ہیں اور جھوٹے الزامات بھارت کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

جب ہر واقعے کو سرحد پار مداخلت سے جوڑا جاتا ہے تو فوجی رد عمل، سرحدوں پر کشیدگی اور عسکری کارروائیاں بڑھتی ہیں۔ آپریشن سندور اور اسی طرز کی دیگر کارروائیاں خطے میں جوہری طاقتوں کے درمیان غلط فہمی کو جنم دے سکتی ہیں۔ ایک ایجنڈا جس کا مقصد صرف سیاسی فائدہ ہو وہ خطے کو جنگ کے کنارے تک لے جا سکتا ہے اور اس کے انسانی، معاشی اور جغرافیائی نتائج تباہ کن ہوں گے۔

حقیقی قوم سازی عوامی بھلائی، اقتصادی مواقع اور سماجی انصاف کے ذریعے ممکن ہے۔ جب حکومت خوف کے ذریعے یکجہتی پیدا کرتی ہے تو وہ صرف عارضی اتحاد قائم کرتی ہے۔ طویل المدت مفاد یہی ہوگا کہ ریاست عوامی مسائل کا حل، شفافیت، احتساب اور عدل کو یقینی بنائے، ورنہ بیانیہ کی طاقت ایک دن عوامی نفرت کا سبب بن سکتی ہے۔

مودی سرکار اگر واقعی ملک کو مضبوط دیکھنا چاہتی ہے تو اسے تین راستے اپنانا ہوں گے۔ داخلی اصلاحات اور معاشی بہتری پر فوکس، مقامی مطالبات پر مؤثر مکالمہ، بین الاقوامی شواہد پر مبنی سفارت کاری اور اشتہاری بیانیہ ترک کرنا۔

مودی حکومت کا پاکستان کو مسلسل قربانی کا بکرا قرار دینا ایک عارضی سیاسی حربہ ہے مگر یہ پالیسی طویل عرصے میں خود بھارت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ نہ صرف اس کی بین الاقوامی ساکھ متاثر ہو رہی ہے بلکہ اندرونی ہم آہنگی بھی بکھر رہی ہے۔ اصل شجاعت اسی میں ہے کہ حکومت اندرونی مسائل کا حل، شہری آزادیوں کا احترام اور علاقائی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے سنجیدہ سفارتکاری اپنائے۔ ورنہ یہ بیانیہ نہ صرف مقامی آزادی کے حق کو پامال کرے گا بلکہ پورے خطے کو غیر محفوظ بھی بنا دے گا۔

اعلان دستبرداری
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • ڈاکٹر حسین جان

    حسین جان کے علمی مفادات بین الاقوامی سلامتی، جغرافیائی سیاسی حرکیات، اور تنازعات کے حل میں ہیں، خاص طور پر یورپ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے۔ انہوں نے عالمی تزویراتی امور سے متعلق مختلف تحقیقی فورمز اور علمی مباحثوں میں حصہ ڈالا ہے، اور ان کا کام اکثر پالیسی، دفاعی حکمت عملی اور علاقائی استحکام کو تلاش کرتا ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔