جنوبی ایشیا کا جغرافیہ اور سیاسی توازن ہمیشہ سے پیچیدہ رہا ہے۔ اس خطے کی تاریخ جنگوں، سرحدی تنازعات اور طاقت کے کھیلوں سے بھری پڑی ہے۔ مگر حالیہ برسوں میں بھارتی پالیسیوں نے اس خطے میں عدم استحکام کو نئی شدت بخشی ہے۔ بھارت کی قیادت، خصوصاً وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے بیانات، ایک ایسے جارحانہ توسیع پسند ایجنڈے کی عکاسی کرتے ہیں جو صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیائی خطے کے لیے خطرہ ہے۔
وجے دشمی جیسے مذہبی اور سیاسی طور پر اہم موقع پر راج ناتھ سنگھ کے بیان نے بھارت کی اصل سوچ کو آشکارا کر دیا۔ انہوں نے پاکستان کو سرکریک سیکٹر میں کسی بھی مہم جوئی کی صورت میں تباہ کن نتائج کی دھمکی دیتے ہوئے نہ صرف عسکری جارحیت کی یاد دہانی کرائی بلکہ لاہور اور کراچی جیسے بڑے شہروں کے حوالے سے بھڑکیں مار کر بھارت کی علاقائی بالادستی کے عزائم کو بے نقاب کیا۔ ان دھمکیوں میں آزاد جموں و کشمیر کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ یہ بیانات محض سیاسی نعرے نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کی عکاسی کرتے ہیں جس کا مقصد پاکستان کی سرحدوں کو غیر مستحکم کرنا اور اپنی فوجی طاقت کے ذریعے خطے پر غلبہ پانا ہے۔
بھارت کے حقیقی عزائم آپریشن سندور جیسے اقدامات سے ظاہر ہوتے ہیں۔ یہ کارروائیاں بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف جارحانہ عزائم کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اس کا مقصد پاکستان کی عسکری صلاحیت کو کمزور کرنا اور اس کی خودمختاری کو نقصان پہنچانا تھا۔ ریاستی اور غیر ریاستی کرداروں کو ملا کر بھارت نے اپنی سرپرستی میں دہشت گردی کا خطرناک کھیل شروع کر رکھا ہے جس نے امن کے امکانات مزید محدود کر دیے۔
اگرچہ پاکستان نے آپریشن بنیان المرصوص اور معرکہ حق کے ذریعے بھارت کو ایسا دندان شکن جواب دیا کہ بھارت کو پوری دنیا میں ذلت اور رسوائی کا سامنا ہے اور بھارتی قیادت عالمی فورمز پر منہ چھپائے پھرتی ہے۔
بھارت کی حکمت عملی کو صرف پاکستان مخالف پالیسی تک محدود سمجھنا غلط ہوگا۔ دراصل یہ ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے جسے اکھنڈ بھارت کے نظریے سے جوڑا جاتا ہے۔ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے واضح الفاظ میں کہا کہ نیپال، سری لنکا اور بنگلہ دیش جیسے ممالک ہمارے اور بھارتی ہیں۔ یہ سوچ ان ممالک کی خودمختاری کے منافی ہے اور خطے میں ایک نئی نوآبادیاتی ذہنیت کو ہوا دیتی ہے۔ بھاگوت نے نیپال اور دیگر ممالک میں عوامی احتجاجی تحریکوں کو غیر ملکی سازش قرار دے کر جمہوری آوازوں کو دبانے کی کوشش کی، جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بھارت اپنی بالادستی کے لیے عوامی خواہشات اور آزادیوں کو بھی روندنے سے دریغ نہیں کرتا۔
بھارت کا اندرونی سیاسی ڈھانچہ بھی اس توسیع پسندانہ سوچ سے جڑا ہوا ہے۔ سلامتی کے معاملات کو مذہبی بنیادوں پر پیش کر کے عوامی رائے کو گمراہ کیا جاتا ہے۔ جیسے پہلگام قتل عام جیسے واقعات کو مذہبی رنگ دے کر پیش کیا گیا جبکہ خود ریاستی تشدد، کشمیریوں پر مظالم اور منی پور میں جاری بدامنی کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ یہ دوہرا معیار بھارت کے اندرونی تضادات اور ریاستی منافقت کو ظاہر کرتا ہے۔
بھارت دہشت گردی کے بیانیے کو ایک ڈھال کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ ہر اختلافِ رائے کو قومی سلامتی کے نام پر کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس حکمت عملی کے ذریعے بھارت دنیا کے سامنے خود کو ایک مظلوم ملک کے طور پر پیش کرتا ہے، جبکہ حقیقت میں وہ خود ریاستی دہشت گردی کو فروغ دینے والا ملک ہے۔ کشمیر میں جاری ریاستی دہشت گردی اور منی پور میں شہریوں پر مظالم اس دوغلی پالیسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
بھارت کی پالیسیوں کو سمجھنے کے لیے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تنظیم ایک متوازی ریاست کے طور پر کام کر رہی ہے جو ہندو تہذیبی بالادستی کو فروغ دیتی ہے۔ سیکولر اداروں کو کمزور کرنا، اقلیتوں کو دبانا اور نسلی قوم پرستی کو ہوا دینا آر ایس ایس کا بنیادی مقصد ہے۔ مودی سرکار اور راج ناتھ سنگھ جیسے وزراء اس تنظیم کی سوچ کے پروردہ ہیں۔ ان کی پالیسیوں میں وہی شدت پسندی جھلکتی ہے جو آر ایس ایس کے بنیادی نظریات کا حصہ ہے۔
آر ایس ایس کی سوچ نے بھارت کی عسکری اور سلامتی پالیسی کو براہ راست متاثر کیا ہے۔ اب بھارت کی خارجہ پالیسی میں تحمل اور تعاون کے بجائے جارحیت اور دھونس کا رجحان نمایاں ہے۔ یہ پالیسی نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ بداعتمادی کو ہوا دے رہی ہے۔
آتم نر بھر بھارت کو بظاہر ایک معاشی خودمختاری کی مہم کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے مگر اس کا اصل مقصد معیشت کو عسکری مقاصد کے تابع کرنا ہے۔ بھارت دفاعی پیداوار میں خود انحصاری کے ذریعے خطے میں اسلحے کی دوڑ کو تیز کر رہا ہے۔ اس رجحان کے باعث خطے کی تجارت اور تعاون کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے اور بھارت خود بھی عالمی سطح پر تنہائی اور پابندیوں کے خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے۔
راج ناتھ سنگھ کی جانب سے آزاد جموں و کشمیر کا بار بار حوالہ دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت اس خطے کو غیر مستحکم کرنے کے لیے کارروائیوں میں ملوث ہے۔ بھارتی انٹیلیجنس ایجنسیاں اسلحہ اور منشیات کی اسمگلنگ، دہشت گرد نیٹ ورکس کی پشت پناہی اور جعلی کارروائیوں کے ذریعے آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں بدامنی کو ہوا دیتی ہیں۔ اس صورتحال کا سب سے بڑا نقصان عام شہریوں کو ہوتا ہے جو لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت کا نشانہ بنتے ہیں۔ پاکستان بارہا عالمی برادری کو آگاہ کر چکا ہے کہ بھارت خفیہ کارروائیوں کے ذریعے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے امن کو داؤ پر لگا رہا ہے۔
عالمی برادری کے لیے ضروری ہے کہ وہ بھارت کے ان جارحانہ عزائم کو محض داخلی مسئلہ سمجھ کر نظر انداز نہ کرے۔ اکھنڈ بھارت کا منصوبہ، آر ایس ایس کی انتہا پسند سوچ اور راج ناتھ سنگھ جیسے رہنماؤں کے دھمکی آمیز بیانات خطے کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ ساتھ نیپال، سری لنکا اور بنگلہ دیش جیسے ممالک بھی بھارتی بالادستی کے نشانے پر ہیں۔
اگر بھارت کو اس کے توسیع پسندانہ عزائم پر جواب دہ نہ ٹھہرایا گیا تو جنوبی ایشیا کبھی امن و استحکام کا گہوارہ نہیں بن سکے گا۔ عالمی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ بھارت کی حقیقی صورتحال کو سمجھیں اور اس کے جارحانہ رویے کے خلاف ایک متوازن اور عملی حکمتِ عملی اپنائیں کیونکہ خطے کا امن صرف پاکستان نہیں بلکہ پوری دنیا کے امن کے لیے ناگزیر ہے۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
ڈاکٹر محمد منیر ایک معروف اسکالر ہیں جنہیں تحقیق، اکیڈمک مینجمنٹ، اور مختلف معروف تھنک ٹینکس اور یونیورسٹیوں میں تدریس کا 26 سال کا تجربہ ہے۔ انہوں نے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس اینڈ سٹریٹیجک سٹڈیز (DSS) سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
View all posts