Nigah

بھارت کو منی پور میں بغاوت اور شدید بدامنی کا سامنا

بھارت کو منی پور میں بغاوت اور شدید بدامنی کا سامنا

جنوب مشرقی بھارت کی سر سبز مگر متنازعہ ریاست منی پور ایک بار پھر آگ اور خون کی لپیٹ میں ہے۔ 19 ستمبر 2025 کو ضلع بشنو پور کے علاقے نمبول میں آزادی پسندوں کے حملے میں دو آسام رائفلز کے اہلکار ہلاک اور پانچ شدید زخمی ہوئے۔ یہ واقعہ بظاہر ایک عسکری کارروائی ضرور ہے، مگر حقیقت میں یہ برسوں سے جاری ریاستی جبر، سیاسی ناانصافی اور ثقافتی استحصال کے خلاف ابھرنے والی عوامی مزاحمت کی علامت ہے۔ مودی سرکار کے لیے یہ صرف ایک سکیورٹی چیلنج نہیں بلکہ بھارتی وفاق کے اندرونی انتشار کا کھلا مظہر ہے۔

منی پور کی شورش کوئی اچانک جنم لینے والا بحران نہیں۔ اس کی جڑیں 1949 کے اس تاریخی واقعے سے جڑی ہیں، جب بھارتی حکومت نے ایک متنازعہ معاہدے کے تحت منی پور کو اپنی یونین میں شامل کر لیا۔ مقامی عوام کی اکثریت نے اس الحاق کو جبر اور دھوکے کا نتیجہ قرار دیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ریاستی جبر، نسلی امتیاز اور سیاسی محرومی نے عوامی ناراضگی کو بغاوت میں بدل دیا۔ آج 75 سال بعد وہی زخم پھر تازہ ہو چکے ہیں، اور آزادی کے مطالبات ایک منظم تحریک کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ حالیہ حملے میں مارے گئے آسام رائفلز کے اہلکار دراصل بھارت کی عسکری پالیسیوں کی ناکامی کا ثبوت ہیں۔

بھارتی سکیورٹی فورسز جدید ہتھیاروں، انٹیلیجنس اور تعداد کے باوجود منی پور کی وادیوں میں امن قائم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ آزادی پسند گروہ نہ صرف منظم ہیں بلکہ انہیں مقامی آبادی کی ہمدردی بھی حاصل ہے۔ ان کا موقف واضح ہے کہ وہ اپنی زمین، شناخت اور خود مختاری کے حق کے لیے لڑ رہے ہیں اور اس سے دستبردار نہیں ہوں گے۔

مودی حکومت نے اس حملے کے بعد حسب روایت طاقت کا بے دریغ استعمال کیا۔ کرفیو نافذ کیا گیا، سینکڑوں نوجوانوں کو گرفتار کر کے لاپتہ کر دیا گیا اور میڈیا پر سخت پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ مگر ان سب اقدامات سے شورش دبنے کے بجائے مزید بھڑک گئی۔ منی پور میں بھارتی حکومت نے ایسا خوفناک ماحول پیدا کر دیا ہے جہاں عام شہریوں کے لیے سانس لینا بھی جرم بن چکا ہے۔ کرفیو، بلاوجہ گرفتاریاں، گھروں پر چھاپے اور میڈیا کا منفی رویہ مل کر ایک ایسا سماجی جال بن چکے ہیں جس میں منی پور کے عوام گھٹن محسوس کر رہے ہیں۔

سانس لینا بھی جرم بن چکا ہے

میڈیا کی اکثریت بھارتی حکومت کے بیانیے کی پیروی کرتی ہے اور علیحدگی پسندوں کو دہشت گرد قرار دے کر ان کی جدوجہد کو بدنام کرتی ہے۔ اس کے برعکس انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ بھارتی فورسز شہریوں کو تشدد، زیادتی اور جبری گمشدگیوں کا نشانہ بنا رہی ہیں۔

سیاسی مبصرین کے مطابق منی پور میں آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ دہائیوں پر محیط ریاستی جبر کا منطقی نتیجہ ہے۔ بھارتی ریاست نے کبھی اس خطے کی ثقافتی خود مختاری، مذہبی شناخت اور سیاسی حقوق تسلیم نہیں کیے۔ مقامی باشندوں کو مشکوک شہری سمجھا جاتا ہے اور مرکزی ایجنسیاں ان کی نگرانی کو قومی سلامتی کا نام دے کر جواز فراہم کرتی ہیں۔

نوجوانوں کو معمولی الزامات پر گرفتار کیا جاتا ہے، طویل تفتیش کے دوران اذیت دی جاتی ہے اور اکثر کو بغیر مقدمے کے جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ طرزِ عمل صرف منی پور تک محدود نہیں بلکہ ناگالینڈ، میزورم اور دیگر شمال مشرقی ریاستوں میں بھی بھارتی پالیسیوں کا یہی حال ہے۔

ہندو انتہا پسند جماعت بی جے پی کی مرکزی حکومت نے منی پور کی شورش کو سیاسی مفاد کے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ مودی حکومت وہاں کی نسلی اور مذہبی تقسیم کو اپنے حق میں استعمال کر رہی ہے۔ ایک طرف وہ میتی اکثریت کو خوش کرنے کی پالیسی اپناتی ہے تو دوسری طرف مسیحی اور قبیلائی اقلیتوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ نتیجتاً ریاست میں فرقہ واریت، لسانی نفرت اور مذہبی دشمنی میں اضافہ ہوا ہے۔

یہی جانبدارانہ رویہ منی پور کے نوجوانوں کو مزاحمت کی طرف دھکیل رہا ہے۔ بھارتی ایجنسیاں ان پر علیحدگی پسندی کا لیبل لگا کر ان کی سیاسی آواز دبانے کی کوشش کر رہی ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ صرف اپنی شناخت کے تحفظ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

حالیہ حملہ اس بندھ یعنی ہڑتال سے محض دو روز قبل ہوا جس کا اعلان آزادی پسند گروہوں نے 21 ستمبر 1949 کے الحاق کے خلاف کیا تھا۔ یہ تاریخ منی پور کے عوام کے لیے یومِ سیاہ کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اسی روز ان کی خود مختار ریاست کو زبردستی بھارتی یونین کا حصہ بنایا گیا تھا۔

ہڑتال سے قبل بھارتی فورسز کی جانب سے گھروں پر چھاپے، شہریوں کی گرفتاری اور انٹرنیٹ کی بندش سے ظاہر ہوتا ہے کہ نئی دہلی منی پور کی تحریکِ آزادی سے خائف ہے۔ بعض گروہوں نے کھل کر کہا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ الحاق کو تسلیم نہیں کرتے اور خود مختاری کے مطالبے سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ یہ موقف انڈیا کے اکھنڈ بھارت کے بیانیے کے منہ پر طمانچہ ہے۔

منی پور کی تحریک دراصل اس بڑے بحران کی نشاندہی ہے جو بھارت کو اندرونی طور پر کشمیر سے لے کر پنجاب اور شمال مشرقی ریاستوں تک لاحق ہے۔ بھارتی ریاست کا جبر اب اپنے بوجھ تلے دب رہا ہے۔

جہاں کہیں بھی قومی سلامتی کے نام پر انسانی حقوق پامال کیے جاتے ہیں، وہاں بغاوت جنم لیتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ منی پور کا مسئلہ اب محض علاقائی نہیں رہا بلکہ یہ بھارت کے وفاقی ڈھانچے کے استحکام پر سوالیہ نشان بن چکا ہے۔

بھارت جو دنیا بھر میں جمہوریت کا خود ساختہ دعوے دار بنتا ہے، خود اپنی اقلیتوں، قبائلیوں اور آزادی پسندوں پر ظلم روا رکھے ہوئے ہے۔ منی پور میں طاقت کے ذریعے امن قائم کرنے کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں اور اب وقت آگیا ہے کہ نئی دہلی حقیقت کا سامنا کرے، یعنی عوام کی خواہشات کو تسلیم کرے۔

منی پور تنازع کے حل کے لیے طاقت نہیں بلکہ مذاکرات، سیاسی شمولیت اور عوامی رائے کا احترام ضروری ہے۔ بھارت کو منی پور کے عوام کو حقِ خود ارادیت دینا چاہیے، نہ کہ ان پر بندوق، گولی اور کرفیو مسلط کرے۔

منی پور کی صورتحال مودی سرکار کے اس بیانیے کی قلعی کھول رہی ہے کہ نیا بھارت امن، ترقی اور اتحاد کا علمبردار ہے۔ حقیقت میں بھارت کا اندرونی نظام نسلی تفریق، مذہبی منافرت اور سیاسی جبر پر قائم ہے۔

منی پور کے عوام کا احتجاج، آزادی پسندوں کی مزاحمت اور بھارتی فورسز کی ناکامی اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھارت اپنے ہی گھر میں امن قائم کرنے میں ناکام ہے۔

منی پور کی وادی عالمی برادری کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ ظلم جتنا بھی طاقتور ہو، آزادی کی خواہش اس سے کہیں زیادہ مضبوط ہوتی ہے، اور جب ایک قوم اپنے حق کے لیے اٹھ کھڑی ہوتی ہے تو بندوق، کرفیو اور میڈیا پروپیگنڈا بھی اسے زیادہ دیر خاموش نہیں رکھ سکتے۔

اعلان دستبرداری
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • انیس الرحمٰن ایک مصنف اور تجزیہ کار ہیں جو اس وقت پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ اردو میں وہ بین الاقوامی تعلقات اور عالمی مسائل میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، اکثر ان موضوعات پر بصیرت انگیز تجزیے لکھتے ہیں۔ ای میل:

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔