Nigah

بھارت کی غیر اعلانیہ جنگ اور آزاد کشمیر سے متعلق جے شنکر کا بیان

بھارت کی غیر اعلانیہ جنگ اور آزاد کشمیر سے متعلق جے شنکر کا بیان

بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کے آزاد کشمیر سے متعلق حالیہ بیان اور آزاد کشمیر میں اچانک افراتفری ایک ہی کڑی کا حصہ ہیں۔ یہ ہائبرڈ وار ہے جس میں دشمن ہمیں اندر سے کمزور کرکے اپنے بیانیے کو سچ ثابت کرنا چاہتا ہے۔

بھارت کے وزیرِ خارجہ سبرامنیم جے شنکر کا حالیہ بیان کہ "ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں، پاکستانی کشمیر خود بخود بھارت کے ساتھ مل جائے گا” دراصل بھارتی سیاسی خوش فہمی اور سفارتی غرور کی جھلک ہے۔

یہ بیان محض ایک سیاسی نعرہ نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی کی جھلک ہے۔ اس کے پیچھے بھارتی پالیسی یہ ہے کہ:

  • پاکستان کے اندر سیاسی خلفشار، معاشی مشکلات اور عوامی بے چینی کو بڑھایا جائے۔
  • آزاد کشمیر کے لوگوں میں بد اعتمادی اور ریاستی اداروں کے خلاف نفرت پیدا کی جائے۔
  • یہ تاثر دیا جائے کہ "پاکستان کمزور ہے، فوج کمزور ہے اور عوام پاکستان سے بیزار ہیں۔”

بھارتی وزیر خارجہ کے اس بیان کے فوراً بعد آزاد کشمیر میں "گیم” کیوں شروع ہوئی؟
یہ وہ سوال ہے جس کا دنیا جاننا چاہتی ہے۔
جے شنکر کے بیان کے چند دن بعد ہی آزاد کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی اور دیگر گروہوں کے نام پر اچانک شدید احتجاج، تشدد اور ریاستی اداروں پر حملے شروع ہو جاتے ہیں۔
یہ محض اتفاق نہیں بلکہ ایک منظم منصوبہ بندی ہے۔ اس کے پیچھے چند اہم نکات ہیں جن میں پہلا ہائبرڈ وار ہے۔

تشدد اور ریاستی اداروں پر حملے

بھارت براہِ راست حملہ نہیں کر سکتا، اس لیے وہ پروپیگنڈہ، جعلی سوشل میڈیا بیانیے اور اندرونی انتشار کو ہوا دیتا ہے۔

دوسرا بڑا نکتہ فالس فلیگ آپریشنز اور فنڈنگ کا ہے۔
بھارت مختلف گروہوں کو فنڈز اور لاجسٹک سپورٹ مہیا کرکے اپنے غداروں کے ذریعے ریاست کے خلاف کھڑا کرتا ہے۔

تیسرا نکتہ اہم ریاستی اداروں پر حملے ہیں۔
پولیس، فوج یا سول اداروں کو نشانہ بنا کر یہ تاثر دینا کہ "پاکستان اپنے ہی علاقے پر کنٹرول نہیں رکھ سکتا۔”

چوتھا نکتہ بین الاقوامی رائے عامہ کو متوجہ کرنا مقصود ہے۔ یہ سب کچھ اس وقت کیا جا رہا ہے جب مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر زیرِ بحث ہے۔ مقصد یہ ہے کہ دنیا کو دکھایا جائے کہ "کشمیری پاکستان سے خوش نہیں۔”

قارئین کرام، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اصل بھارتی حکمتِ عملی کیا ہے؟ آئیے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

دراصل بھارت کے ڈاکٹرائن آف ڈیس انفارمیشن کے تین بنیادی مقاصد ہیں:

  1. آزاد کشمیر کو اندر سے غیر مستحکم کرنا۔
  2. پاکستان کے عوام اور فوج کے درمیان بداعتمادی پیدا کرنا۔
  3. عالمی سطح پر پروپیگنڈا کرنا کہ "پاکستان کشمیر کھو رہا ہے۔”

جے شنکر کے بیان کے فوراً بعد یہ احتجاج اور تصادم شروع ہونا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ سب کچھ Coincidence نہیں بلکہ Pre-Planned Strategy ہے۔

عوام اور فوج کے درمیان خلیج پیدا کرنا دشمن کی سب سے بڑی کامیابی ہوگی۔

ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ احتجاج کا حق الگ چیز ہے، لیکن جب یہی احتجاج مسلح تصادم اور ریاستی اداروں پر حملوں میں بدل جائے تو یہ تحریک نہیں بلکہ ایک منظم سازش بن جاتی ہے۔

بھارت اس وقت صرف ایک بیانیے پر کھیل رہا ہے: "پاکستان اندرونی طور پر ٹوٹ رہا ہے”۔
اس بیانیے کو ناکام بنانے کی ذمہ داری حکومت، اداروں اور عوام سب پر ہے۔

قارئین محترم، آپ خود سوچیں کہ جب آزاد کشمیر کا ایک باقاعدہ سیاسی و انتظامی ڈھانچہ موجود ہے تو پھر ایک غیر رجسٹرڈ اور غیر منتخب گروہ کو عوام کے نمائندے بننے کا حق کس نے دیا؟

عوامی سطح پر یہ شکوک موجود ہیں کہ جے اے اے سی بیرونی قوتوں کے اشارے پر متحرک تو نہیں جو آزاد کشمیر میں بدامنی اور انتشار پیدا کرنا چاہتی ہیں؟
تاریخ گواہ ہے کہ دشمن قوتیں ہمیشہ کشمیر کے امن کو بگاڑنے کی کوشش کرتی رہی ہیں تاکہ پاکستان کو دباؤ میں رکھا جا سکے۔

پاکستان اور آزاد کشمیر کی حکومتیں ہمیشہ عوامی مسائل کے حل کے لیے بات چیت پر یقین رکھتی ہیں۔
کشمیر کے مسائل کے حل کے لیے دونوں حکومتیں عملی اقدامات کر رہی ہیں لیکن جے اے اے سی کے رویے نے ان مسائل کو حل کرنے کی بجائے مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
احتجاجی سیاست کا نقصان براہ راست عوام کو پہنچتا ہے جبکہ مسائل کے حل کے لیے مذاکرات اور آئینی راستہ ہی بہتر طریقہ ہے۔

پاکستان کا موقف بڑا واضح ہے کہ آزاد کشمیر کے عوام کے دکھ درد اور مسائل ہمارے اپنے ہیں۔
ان کے لیے ہر ممکن وسائل فراہم کیے جا رہے ہیں لیکن عوام دشمن سیاست کے ذریعے ترقی کے راستے مسدود کرنا کسی صورت قبول نہیں۔

حکومت پاکستان سمجھتی ہے کہ ایکشن کمیٹی جیسی غیر ذمہ دار تحریکیں عوام کے مسائل میں اضافے کے علاوہ دشمن کے ایجنڈے کو تقویت دے رہی ہیں۔
آزاد کشمیر کی عوام یہ پوچھنے پر مجبور اور حق بجانب ہیں کہ جے اے اے سی نے اب تک عوامی مسائل کے حل کے لیے کون سا عملی اور مثبت قدم اٹھایا؟
ہڑتالوں اور دھرنوں سے عوام کو کیا فائدہ پہنچا؟
اگر بجلی، تعلیم یا صحت کے مسائل تھے تو ان کے لیے سیاسی اور آئینی طریقے کیوں اختیار نہ کیے گئے؟
کمیٹی کی فنڈنگ کہاں سے ہو رہی ہے؟
اس کا احتساب کون کرے گا؟

ان سوالات کے جواب ایکشن کمیٹی کے پاس نہیں، جس سے یہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ یہ کمیٹی کسی خفیہ ایجنڈے کا حصہ ہے۔
دشمن قوتیں جو پاکستان کو اندرونی محاذوں پر الجھانے کی کوشش میں رہتی ہیں، آزاد کشمیر میں انتشار پیدا کر کے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں۔
یہ ایجنڈا دراصل پاکستان کے خلاف ایک غیر اعلانیہ جنگ ہے جس میں عوام کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔

آزاد کشمیر کی عوام باشعور ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ ترقی اور خوشحالی احتجاجی سیاست کے ذریعے نہیں بلکہ پاکستان کے ساتھ مل کر آئینی اور ادارہ جاتی راستے سے حاصل کی جا سکتی ہے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام ایکشن کمیٹی جیسے غیر ذمہ دار پلیٹ فارمز کو مسترد کریں اور اپنی توانائیاں مثبت ترقیاتی عمل میں لگائیں۔

جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے احتجاجوں نے آزاد کشمیر کو فائدے کی بجائے نقصان پہنچایا ہے۔
تعلیم، صحت، معیشت اور ترقیاتی منصوبے سب متاثر ہوئے ہیں۔
یہ کمیٹی نہ تو عوامی مینڈیٹ رکھتی ہے اور نہ ہی عوامی مسائل کے حقیقی حل میں کوئی کردار ادا کر رہی ہے۔
پاکستان کا موقف یہی ہے کہ عوام دشمن سیاست کو ترک کر کے صرف اور صرف آئینی، جمہوری اور تعمیری راستہ اپنایا جائے۔

اعلان دستبرداری
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • مصنف ایک معزز میڈیا پیشہ ور ہیں جو نیشنل نیوز چینل ایچ ڈی کے چیف ایگزیکٹو اور "دی فرنٹیئر انٹرپشن رپورٹ" کے ایگزیکٹو ایڈیٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ان سے  پر رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔