رواں ماہ طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کا بھارت کا دورہ جنوبی ایشیا کی سیاست میں ایک غیر معمولی واقعہ سمجھا جا رہا ہے۔ یہ وہی بھارت ہے جو دو دہائیاں قبل طالبان کو دہشت گرد قرار دیتا تھا، خواتین کے حقوق کے دشمن کہہ کر عالمی سطح پر ان کے خلاف مہم چلاتا تھا اور افغانستان میں ان کے اقتدار کے خاتمے پر جشن مناتا تھا۔ لیکن آج وہی بھارت انہی طالبان رہنماؤں کے ساتھ مصافحہ کرتے ہوئے سفارتی کامیابی کے نعرے لگا رہا ہے۔
یہ رویہ دراصل بھارت کی گہری منافقت، موقع پرستی اور پاکستان دشمن پالیسی کا مظہر ہے۔ اقوام متحدہ کی پابندیوں کے باوجود طالبان سے براہ راست رابطہ قائم کرنا نہ صرف عالمی قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس امر کا بھی ثبوت ہے کہ بھارت کسی بھی اخلاقی یا قانونی حد کو عبور کر کے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے تیار ہے۔
طالبان سے تعلقات کی بحالی بھارت کے لیے کسی کامیابی کا نہیں بلکہ اخلاقی شکست کا اعلان ہے۔ دہلی نے ہمیشہ خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلوانا پسند کیا ہے، لیکن جب مفادات کا سوال آیا تو اسی جمہوریت کے اصولوں کو پامال کر دیا۔
طالبان وہی گروہ ہے جو خواتین کی تعلیم، اظہار رائے اور بنیادی انسانی حقوق کے خلاف سخت موقف رکھتا ہے۔ ایسے گروہ کے ساتھ بھارت کے باضابطہ تعلقات ظاہر کرتے ہیں کہ مودی حکومت کے نزدیک اصولوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ صرف سیاسی فائدہ اور پاکستان کو نقصان پہنچانا اہم ہے۔
یہ رویہ بھارت کے اندرونی سیاسی بحران کا بھی عکاس ہے جہاں ہندوتوا نظریہ اخلاقیات، رواداری اور انصاف کی جگہ مفاد پرستی اور انتقام کو فروغ دے رہا ہے۔
محبوبہ مفتی کی تلخ حقیقت، دہلی کی دوغلی سیاست بے نقاب
جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے طالبان کے بھارت میں استقبال پر شدید ردعمل دیا اور کہا "جنہیں بھارت کبھی دہشت گرد کہتا تھا، آج وہ دہلی میں مہمان خصوصی ہیں”۔
ان کے اس بیان نے بھارتی خارجہ پالیسی کے اخلاقی دیوالیہ پن کو عیاں کر دیا۔ بھارت کا طالبان کے ساتھ سفارتی تعلق قائم کرنا صرف منافقت نہیں بلکہ اس کی جمہوری شناخت پر بدنما داغ ہے۔
دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے بھارت اب تعلقات کی بحالی کو امن کی کوشش بنا کر پیش کر رہا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ اقدام پاکستان کے خلاف خفیہ سفارتی حملہ ہے۔
پاکستان دشمنی، بھارتی خارجہ پالیسی کا مستقل ایجنڈا
بھارت کی طالبان سے قربت انسانی ہمدردی یا امن کی کوشش نہیں بلکہ پاکستان دشمنی کے تسلسل کا حصہ ہے۔
افغانستان میں بھارت کی موجودگی ہمیشہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے استعمال ہوئی۔ بھارتی قونصل خانوں کے ذریعے ماضی میں بلوچ علیحدگی پسندوں اور دہشت گرد گروہوں کو مالی مدد فراہم کی گئی۔
اب جب کہ طالبان دوبارہ برسر اقتدار ہیں، بھارت ایک بار پھر انہیں پاکستان کے خلاف پراکسی کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہی وہ پرانی حکمت عملی ہے جس کے تحت بھارت پاکستان کے خلاف ہر فورم پر نفرت کا بیانیہ پھیلاتا ہے، چاہے وہ سرحدی تنازعات ہوں یا عالمی سطح پر سفارتی لابنگ۔
سفارتی کاری کے پردے میں شدت پسندی سے ناطہ
طالبان حکومت کے زیر سایہ آج بھی داعش، القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان جیسے گروہ سرگرم ہیں۔ ایسے ماحول میں بھارت کا طالبان سے براہ راست رابطہ قائم کرنا بین الاقوامی برادری کے لیے تشویش ناک علامت ہے۔
مودی حکومت اسے "سفارتی رابطہ” قرار دے رہی ہے، مگر درحقیقت یہ شدت پسند نیٹ ورکس کے ساتھ خفیہ تعاون کا آغاز ہے۔
وہی بھارت جو عالمی فورمز پر دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھاتا ہے، آج انہی شدت پسندوں کو سفارتی شریک دار بنا کر پیش کر رہا ہے۔
یہ دوغلا پن اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت کی دہشت گردی کے خلاف جنگ دراصل ایک سیاسی تماشہ ہے جس کا مقصد صرف پاکستان کو نشانہ بنانا ہے، نہ کہ دہشت گردی کا خاتمہ۔
خواتین صحافیوں کی تذلیل، مودی سرکار کی خاموش حمایت
امیر خان متقی کے دورہ دہلی کے دوران ایک پریس کانفرنس میں افغان سفارت خانے کے اہلکاروں نے خواتین صحافیوں کو زبردستی باہر نکال دیا۔ یہ عمل انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی تھا، لیکن مودی حکومت نے مکمل خاموشی اختیار کی۔
اقوام متحدہ اور بھارتی آئین دونوں میں خواتین کو مساوی حقوق حاصل ہیں، مگر مودی حکومت نے اپنے سیاسی مفاد کی خاطر ان اصولوں کو نظر انداز کر دیا۔
یہ خاموشی محض سفارتی مصلحت نہیں بلکہ طالبان کے صنفی امتیاز پر مبنی نظریے کی عملی تائید تھی۔ بھارت نے اپنی اخلاقی ساکھ کو خود اپنے ہاتھوں دفن کر دیا۔
طالبان کا دورہ، پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی نئی سازش
امیر خان متقی کا بھارت دورہ اس وقت ہوا جب سرحد پار سے طالبان کے عسکری گروہ پاکستان پر حملے کر رہے تھے۔ ایسے وقت میں بھارت کی جانب سے طالبان کو خوش آمدید کہنا کسی اتفاق کا نتیجہ نہیں، بلکہ یہ ایک واضح بھارت افغان گٹھ جوڑ کی نشانی ہے جس کا مقصد پاکستان کو سفارتی، سیاسی اور سکیورٹی محاذوں پر دباؤ میں لانا ہے۔
نئی دہلی ہمیشہ اپنی نرم طاقت (Soft Power) کا استعمال دہشت گرد گروہوں کے ساتھ تعلقات بنانے کے لیے کرتی رہی ہے۔
طالبان سے یہ قربت دراصل پاکستان کے مغربی سرحدی دباؤ کو بڑھانے اور سی پیک جیسے منصوبوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے۔
دیوبند کا کردار، مذہبی اور سیاسی منافقت کا مظاہرہ
طالبان کے نمائندے کا دیوبند مدرسے میں پرجوش استقبال اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت کے مذہبی ادارے بھی اب سیاسی مفادات کے تابع ہو چکے ہیں۔
وہی دیوبندی مکتب فکر جو ماضی میں طالبان کے نظریات سے لا تعلقی کا اظہار کرتا رہا، اب سیاسی اشاروں پر انہی کے نمائندوں کو خوش آمدید کہہ رہا ہے۔
یہ منظر بھارت کے مذہبی طبقے کے نظریاتی زوال اور سیاسی مصلحت پرستی کا عکاس ہے۔ مذہب کے نام پر مفادات حاصل کرنا بھارت کی سرکاری پالیسی کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔
افغانستان، بھارت کی تزویراتی شطرنج کی نئی بساط
بھارت افغانستان کو ایک جغرافیائی مہرے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ مودی سرکار کا مقصد واضح ہے۔
پاکستان کے تجارتی راستوں کو کمزور کرنا، چین کے سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنا اور ایران کے چاہ بہار منصوبے کو زندہ کر کے امریکہ و یورپ کو خوش رکھنا۔
افغانستان کی موجودہ صورتحال بھارت کو ایک نیا موقع فراہم کر رہی ہے کہ وہ طالبان کے کندھوں پر سوار ہو کر خطے میں اپنی سیاسی موجودگی بحال کرے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ طالبان کے ساتھ یہ قربت بھارت کو فائدہ نہیں بلکہ عالمی سطح پر نقصان پہنچائے گی، کیونکہ دنیا اب بھی طالبان حکومت کو غیر تسلیم شدہ سمجھتی ہے۔
اختتامیہ، طالبان دوستی نہیں، بھارتی مایوسی کی نشانی
طالبان کے ساتھ بھارت کے بڑھتے تعلقات دراصل مودی حکومت کی علاقائی مایوسی، سیاسی کمزوری اور اخلاقی زوال کا مظہر ہیں۔
ہندوتوا نظریہ نے بھارت کو عالمی سطح پر تنہا کر دیا ہے۔ اب جب مغرب کے ساتھ تعلقات کمزور ہو رہے ہیں اور چین و روس خطے میں مضبوط ہو چکے ہیں، تو بھارت طالبان جیسے رجعت پسند گروہ کے ذریعے اپنی کھوئی ہوئی حیثیت واپس حاصل کرنا چاہتا ہے۔
مگر یہ کوشش بھی ناکام ہوگی، کیونکہ دنیا جان چکی ہے کہ بھارت کے لیے اصول نہیں بلکہ مفاد، امن نہیں بلکہ انتقام، اور انسانیت نہیں بلکہ سیاست زیادہ اہم ہے۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
محمد عبداللہ آسٹن یونیورسٹی، برطانیہ میں بین الاقوامی تعلقات میں امیدوار۔ ان کی تحقیقی دلچسپیاں عالمی سلامتی، خارجہ پالیسی کے تجزیہ اور بین الاقوامی سفارت کاری کی ابھرتی ہوئی حرکیات پر مرکوز ہیں۔ وہ علمی گفتگو میں فعال طور پر مصروف ہیں اور جنوبی ایشیائی جغرافیائی سیاست اور کثیر جہتی تعلقات پر خاص زور دینے کے ساتھ علمی پلیٹ فارمز میں حصہ ڈالتے ہیں۔
View all posts