بھارت کی ریاست بہار ایک بار پھر سیاسی ہلچل کا مرکز بن چکی ہے۔ بہار میں 2025 کے قانون ساز اسمبلی انتخابات 6 اور 11 نومبر کو دو مراحل میں منعقد ہوں گے۔ جب کہ نتائج کا اعلان 14 نومبر کو کیا جائے گا۔ ماضی میں یہ ریاست تین یا پانچ مرحلوں میں ووٹنگ کا گڑھ رہی ہے۔ لیکن اس بار الیکشن کمیشن نے صرف دو مراحل میں انتخابی عمل مکمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جسے مبصرین پولرائزیشن (سیاسی تقسیم) کے دوران لاجسٹک آسانی کے لیے ایک سیاسی اقدام قرار دے رہے ہیں۔
بہار ہمیشہ سے ذات پات، مذہب اور غربت کے بیانیوں کا مجموعہ رہا ہے۔ اس کے سیاسی تانے بانے میں عوامی فلاح سے زیادہ سیاسی وجود کی بقا کو ترجیح دی جاتی رہی ہے اور 2025 کا انتخاب اسی رجحان کا تسلسل ہے۔
موجودہ سیاسی منظرنامہ
ریاست پر اس وقت نتیش کمار کی قیادت میں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کی حکومت قائم ہے۔ جس میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)، جنتا دل (یونائیٹڈ)، ہندوستانی آوام مورچہ (ایچ اے ایم) اور چند چھوٹے اتحادی شامل ہیں۔
بہار اسمبلی کی 243 نشستوں میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے 122 سیٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
موجودہ اعداد و شمار کے مطابق نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کے پاس 132 نشستیں ہیں۔ جن میں بی جے پی کی 78، جے ڈی یو 45، ایچ اے ایم 4 جبکہ دیگر 5 اتحادیوں کی نشستیں شامل ہیں۔
اسی طرح اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل مہاگٹھ بندھن کے پاس کل 110 نشستیں ہیں۔ جن میں آر جے ڈی 75، کانگریس 19 اور بائیں بازو کی جماعتوں کے پاس 16 نشستیں ہیں۔
تاہم عوامی سطح پر بے روزگاری، کرپشن، خراب بنیادی ڈھانچہ اور ذات پات کی تقسیم نے شدید بے اطمینانی پیدا کر رکھی ہے۔ دیہی طبقہ خاص طور پر نچلی ذاتوں کے ووٹر اب ماضی کی طرح بی جے پی یا جے ڈی یو کے وعدوں پر یقین نہیں کرتے۔
انتخابات سے قبل کی پیش رفت
بی جے پی نے 2025 کے انتخابات کے لیے اکتوبر میں اپنے امیدواروں کی دو فہرستیں جاری کیں۔ جن میں مجموعی طور پر 106 امیدوار شامل تھے۔ ان فہرستوں میں پرانے تجربہ کار رہنماؤں کے ساتھ نئے چہروں کو بھی موقع دیا گیا ہے تاکہ ووٹرز کے درمیان تازگی اور تاثر پیدا کیا جا سکے۔
تاہم انتخابی ایجنڈا وہی پرانا ہے یعنی ترقی، سلامتی، قوم پرستی اور پاکستان مخالف بیانیہ۔
مودی حکومت اور امیت شاہ کی حکمتِ عملی واضح ہے کہ "ناکامیوں کو چھپانے کے لیے بیرونی دشمن کا تصور پیدا کرو"۔
اسی لیے پہلگام حملے کے بعد وزیر اعظم نے بہار کی ریلی میں پاکستان مخالف بیانات کو انتخابی مہم کا حصہ بنایا۔
بی جے پی کی انتخابی حکمت عملی
بی جے پی کی مہم تین ستونوں پر کھڑی ہے
🔸 قوم پرستی کا بیانیہ ۔ بیرونی خطرے کے تصور سے ووٹ بینک کو متحد کرنا
🔸مذہبی پولرائزیشن ۔ ہندو ووٹرز کو ایک شناخت کے تحت منظم کرنا
🔸انتظامی ناکامیوں پر پردہ ڈالنا
بی جے پی اپنی تقریروں میں پاکستان، نیپال اور اندرونی دشمنوں کا ذکر بڑھا چکی ہے۔ ریاست میں 42,000 کروڑ روپے کے سرمایہ بجٹ کے باوجود انفراسٹرکچر تباہ حال ہے۔ سڑکیں خستہ، اسکول غیر فعال، اسپتال ناکافی اور نوجوان روزگار کے لیے باہر ہجرت پر مجبور ہیں۔ 2020 میں جو وعدے کیے گئے تھے وہ آج بھی پراجیکٹ فائلوں میں دفن ہیں۔
اقلیتوں کا استحصال اور مصنوعی پولرائزیشن
بی جے پی اور اس کے اتحادی، خاص طور پر جے ڈی یو نے بہار میں اقلیتوں کی نمائندگی کو کمزور کرنے کی منظم پالیسی اپنائی ہے۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) جس کی قیادت اسد الدین اویسی کر رہے ہیں، کو سیاسی مبصرین بی جے پی کی پراکسی کے طور پر دیکھتے ہیں جو مسلم ووٹ تقسیم کر کے سیکولر اتحاد کو نقصان پہنچاتی ہے۔
2025 کے آغاز سے اب تک بہار میں فرقہ وارانہ تشدد کے 65 واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں جو 2024 کے صرف 7 واقعات کے مقابلے میں حیرت انگیز اضافہ ہے۔ زیادہ تر متاثرین مسلمان، دلت اور عیسائی ہیں۔
بی جے پی کی "منڈل بمقابلہ مندر” پالیسی ایک بار پھر متحرک کی گئی ہے تاکہ ذات پات کی تقسیم کو مذہبی درجہ بندی میں بدلا جا سکے۔
کھوکھلے ترقیاتی وعدے
بہار میں بی جے پی کا سب سے بڑا نعرہ "وکاس” یعنی ترقی رہا ہے۔ لیکن زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ ریاست کا سرمایہ جاتی بجٹ 42 ہزار کروڑ روپے ہے مگر ترقی کی رفتار نہ ہونے کے برابر ہے۔ بے روزگاری بہار کے ووٹروں کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔
بے روزگاری کی مجموعی شرح 3.9 فیصد ہے جن میں شہری نوجوان 10.8 فیصد ہیں۔
اسی طرح 3.16 کروڑ رجسٹرڈ بے روزگار ہیں۔ بہار کے نجی شعبے میں روزگار صرف 1.9 فیصد تک ہے۔ معاشی بدحالی اور غربت کے باعث بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہو رہی ہے۔ بہار کے لاکھوں مزدور اب بھی دہلی، پنجاب، مہاراشٹر اور خلیجی ممالک میں روزی کے لیے سرگرداں ہیں جبکہ ان کے اپنے گھروں میں فیکٹریاں بند اور کھیت بنجر ہیں۔
نیپال اور پاکستان کو انتخابی دشمن کے طور پر پیش کرنا
بہار کے سرحدی جغرافیہ کو بھی بی جے پی نے اپنی مہم کا حصہ بنا لیا ہے۔ نیپال سے متصل 726 کلومیٹر لمبی سرحد کو "سکیورٹی رسک” قرار دے کر اس کے علاقوں کو دہشت گرد دراندازی کے مراکز کے طور پر دکھایا جا رہا ہے۔
کشن گنج، ارریہ، پورنیہ، مدھوبانی جیسے اضلاع کو مودی حکومت نے اپنے بیانیے میں "خطرناک زون” بنا دیا ہے تاکہ ہندو ووٹ بینک کو خوف اور قوم پرستی کے ذریعے متحد کیا جا سکے۔
یہ ایک پرانی سیاسی چال ہے۔
جب معاشی ناکامیاں بڑھ جائیں تو دشمن کی کہانی بنا کر عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا دو۔
سیاسی تجزیہ کار اسے "سیکیورٹیائزیشن آف پولیٹکس” قرار دیتے ہیں یعنی عوامی مسائل کو سلامتی کے پردے میں چھپانا۔
دلتوں اور پسماندہ طبقات کی نمائندگی
بہار میں ذات پات کی بنیاد پر سیاست اب بھی مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ بی جے پی اور جے ڈی یو کے اتحاد میں اعلیٰ ذات (ساورنا) کا غلبہ ہے جو ذات پات کی مردم شماری جیسے اقدامات کی مخالفت کر رہا ہے کیونکہ یہ پسماندہ طبقوں کے سیاسی اثر کو بڑھا سکتا ہے۔
مسلمان، دلت اور او بی سی (پسماندہ ذاتیں) چھوٹی پارٹیوں میں بٹے ہوئے ہیں جس سے بی جے پی کو سیاسی فائدہ حاصل ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلاموفوبیا، نفرت انگیز تقاریر اور بلڈوزر سیاست نے اقلیتوں کو مزید خوفزدہ اور بے اختیار کر دیا ہے۔
الیکشن کمیشن اور دھاندلی کے خدشات
بہار کی سیاست میں ایک اور بڑا عنصر انتخابی شفافیت ہے۔ انڈین نیشنل کانگریس اور دیگر جماعتوں نے ووٹ چوری اور ای وی ایم ہیرا پھیری کے الزامات لگائے ہیں۔
بی جے پی پر الزام ہے کہ وہ ڈیجیٹل مہم، میڈیا کنٹرول اور انتظامی اثرورسوخ کے ذریعے میدان پہلے ہی اپنے حق میں ہموار کر چکی ہے۔
اس کے باوجود عوامی سطح پر بداعتمادی اور بغاوت کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ خاص طور پر نوجوان طبقہ جو مذہبی سیاست سے تھک چکا ہے۔
مصنوعی قوم پرستی بمقابلہ عوامی فلاح
بہار کے انتخابات دراصل مودی دور کی سیاست کا آئینہ ہیں۔ جہاں قوم پرستی ایک سیاسی ہتھیار ہے، پاکستان ایک انتخابی نعرہ اور فرقہ واریت عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے کا ذریعہ ہے۔
2025 کے بہار انتخابات یہ طے کریں گے کہ بھارت کی جمہوریت پروپیگنڈا اور خوف کے زیر اثر رہے گی یا عوامی شعور کے ہاتھوں کوئی نئی سمت اختیار کرے گی۔
اگر بہار کے ووٹر مذہب، ذات اور مصنوعی دشمنی سے اوپر اٹھ کر روزی، روزگار، تعلیم اور انصاف کو ووٹ دیں تو شاید یہ انتخاب بھارت کی سیاست کے لیے ایک نیا موڑ ثابت ہو۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
ڈاکٹر محمد منیر ایک معروف اسکالر ہیں جنہیں تحقیق، اکیڈمک مینجمنٹ، اور مختلف معروف تھنک ٹینکس اور یونیورسٹیوں میں تدریس کا 26 سال کا تجربہ ہے۔ انہوں نے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس اینڈ سٹریٹیجک سٹڈیز (DSS) سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
View all posts
