بھارت میں برسرِ اقتدار جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) جو کبھی خود کو ناقابلِ شکست قومی قوت کے طور پر پیش کرتی تھی، اب اپنی بنائی ہوئی سیاست کے بوجھ تلے دبتی جا رہی ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر اور لداخ سے لے کر شمالی بنگال کے سیلاب زدہ میدانوں اور صوبہ بہار کے انتخابی میدانوں تک عوامی غصے، سماجی بیزاری اور سیاسی بداعتمادی نے بی جے پی کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔ آنے والے صوبہ بہار کی اسمبلی کے انتخابات دراصل مودی حکومت کے تقسیم پسندانہ طرزِ سیاست، معاشی ناکامیوں اور خالی نعروں کے خلاف ایک فیصلہ کن ریفرنڈم بننے جا رہے ہیں۔
پانچ اکتوبر 2025 کو شمالی بنگال کے ضلع جالپائی گوڑی میں پیش آنے والا واقعہ بی جے پی کے زوال کی تازہ ترین اور واضح علامت ہے۔ انتہا پسند جماعت بی جے پی کے رکنِ پارلیمان خاگن مرمو اور ایم ایل اے شنکر گھوش جب ناگر کاتا کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کر رہے تھے تو مشتعل عوام نے ان پر شدید حملہ کیا، سڑکیں بند کر دی گئیں، "واپس جاؤ” کے نعرے لگائے گئے اور عوام نے ان رہنماؤں پر پتھروں، لاٹھیوں اور جوتوں سے وار کئے۔ یہ محض کسی واقعے کا نتیجہ نہیں بلکہ برسوں کے فریب، وعدہ خلافیوں اور نمائشی سیاست کا ردِ عمل تھا۔
قبائلی رہنما خاگن مرمو ان ہی عوام کے ہاتھوں زخمی ہوئے جن کے نام پر بی جے پی نے ووٹ حاصل کیے تھے۔ پولیس کی موجودگی کے باوجود یہ حملہ روکنے میں ناکامی اس بات کا کھلا اعتراف ہے کہ عوامی سطح پر بی جے پی کی ساکھ مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔ یہ صورتحال بھارت کے عام شہری کے ذہن میں بیٹھے اس سوال کو نمایاں کرتی ہے جو برسوں سے دبایا جا رہا تھا کہ کیا بی جے پی واقعی عوام کی نمائندہ جماعت ہے یا صرف اقتدار کی بھوک کی تنظیم؟
بی جے پی نے حسبِ روایت اس واقعے کی ذمہ داری مغربی بنگال کی حکمران جماعت ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) پر ڈال دی اور الزام لگایا کہ ممتا بینر جی شمالی بنگال کی تباہی کے دوران کلکتہ میں کارنیوال میں شریک تھیں، مگر یہ بیان دراصل عوامی بیزاری کو چھپانے کی ایک ناکام کوشش تھی۔ حقیقت میں عوام بی جے پی کی نمائشی سیاست، جھوٹے وعدوں اور موقع پرستی سے اکتا چکے ہیں۔ "ڈبل انجن حکومت” یعنی مرکز اور ریاست میں بی جے پی کے اقتدار کا نعرہ اب مذاق بن چکا ہے کیونکہ دونوں انجن عوامی مسائل حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئے ہیں۔
شمالی بنگال کے عوامی ردِ عمل نے واضح کر دیا کہ ہمدردی کے بغیر سیاست دیرپا نہیں ہو سکتی۔ بی جے پی کا سارا زور مذہبی تقسیم، ماضی کی تلخ یادوں اور مصنوعی دشمنی پر ہے مگر اب عوام روزگار، تعلیم اور انصاف چاہتے ہیں۔ اس دوغلی پالیسی سے وہ طبقہ جو کبھی بی جے پی کا مضبوط ووٹر سمجھا جاتا تھا، اب مخالف سمت میں جا رہا ہے۔ بی جے پی کے اندرونی رہنما اب ماننے لگے ہیں کہ عوامی رابطہ ختم ہو چکا ہے اور پارٹی ایک انتظامی مشین بن کر رہ گئی ہے، ایک ایسی مشین جو صرف انتخابات جیتنے کے لیے چلتی ہے، عوام کی خدمت کے لیے نہیں۔
بنگال کی مایوسی کسی ایک ریاست تک محدود نہیں، پورے بھارت میں بی جے پی کی پالیسیاں عوامی ردِ عمل کو جنم دے رہی ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد آج بھی حالات نارمل نہیں۔ عوام فوجی محاصرے، روزگار کی قلت اور زمینوں کے چھن جانے کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ لداخ میں دہلی کی وعدہ خلافیوں کے خلاف عوام سراپا احتجاج ہیں۔ وہ خود مختاری چاہتے تھے مگر بی جے پی نے انہیں بیوروکریسی کے تابع کر دیا۔ منی پور میں نسلی تشدد بی جے پی کی نااہلی اور ریاستی شمولیت کے الزامات کو اجاگر کر چکا ہے۔ جنوبی بھارت میں تامل ناڈو، کیرالہ اور تلنگانہ بی جے پی کی ہندوتوا پالیسیوں کو کھلے عام مسترد کر چکے ہیں۔ یہ تمام ریاستیں ایک ہی سمت میں اشارہ کر رہی ہیں کہ بی جے پی کی مرکزی گرفت کمزور ہو رہی ہے۔
اب نظریں بہار پر ہیں جہاں 6 اور 11 نومبر 2025 کو دو مراحل میں انتخابات ہوں گے۔ ان انتخابات کو الیکشن کمیشن نے تمام انتخابات کی ماں قرار دیا ہے۔ 243 نشستوں پر ہونے والی اس جنگ میں حکمران نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) جس کی قیادت نتیش کمار کر رہے ہیں، کا مقابلہ مہا گٹھ بندھن سے ہے جس میں لالو پرساد یادو کی آر جے ڈی پیش پیش ہے۔ پراشانت کشور کی جن سورج اور عام آدمی پارٹی جیسے نئے کردار اس معرکے کو مزید دلچسپ بنا رہے ہیں۔
بی جے پی کے لیے یہ انتخابات صرف اقتدار کا نہیں بلکہ وجود کا سوال بن چکا ہے۔ بہار کی سیاست ذات پات، برادریوں اور علاقائی شناخت کے گرد گھومتی ہے۔ بی جے پی کا زور اب بھی برہمن، راجپوت اور بھو میہار جیسے بالادست طبقات پر ہے، مگر بہار میں ووٹوں کا توازن دلت، یادو، کوئری، کرمی اور مسلم برادریوں کے ہاتھ میں ہے اور یہی طبقے اب بی جے پی سے بدظن ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، بدعنوانی اور بدانتظامی نے عوامی غصے کو انتہا تک پہنچا دیا ہے۔
نوجوان طبقہ جو کبھی بی جے پی کا سب سے مضبوط سہارا تھا، اب پارٹی کے خلاف صف آرا ہے۔ وہ جان چکے ہیں کہ مذہبی نعروں سے پیٹ نہیں بھرتا اور نفرت کی سیاست ترقی نہیں دیتی۔ نئی نسل اب بھارت کے سیاسی منظر نامے کو بدل رہی ہے اور بی جے پی کی پالیسیوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکی ہے۔
بی جے پی کا زوال محض ایک داخلی سیاسی تبدیلی نہیں ہوگا بلکہ خطے میں طاقت کے توازن کی بڑی علامت ہے۔ مودی سرکار نے اپنے اقتدار کے دوران بھارت کے اندر اقلیتوں کے حقوق پامال کیے اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کو نئی انتہا تک پہنچایا۔ اگر بہار کے انتخابات میں بی جے پی کو شکست ہوتی ہے تو یہ پیغام پورے خطے میں گونجے گا کہ طاقت، جبر اور قوم پرستی کا فریب زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔
کشمیر کی وادیوں کی خاموشی سے لے کر بنگال کے شوریدہ حال میدانوں اور بہار کی انتخابی گلیوں تک ایک ہی صدا سنائی دے رہی ہے کہ بی جے پی کی ناقابلِ شکست ہونے کی کہانی ختم ہونے کے قریب ہے۔ وہ لہر جو کبھی انتہا پسند جماعت بی جے پی کو اقتدار کی بلندیوں تک لے گئی تھی، اب اسی کو پاتال میں کھینچ رہی ہے اور بہار وہ میدان بن سکتا ہے جہاں اس کے زوال کی داستان مکمل تحریر ہو جائے گی۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
ڈاکٹر سید حمزہ حسیب شاہ ایک تنقیدی مصنف اور تجزیہ کار ہیں جو بین الاقوامی تعلقات میں مہارت رکھتے ہیں، خاص طور پر ایشیا اور جغرافیائی سیاست پر توجہ دیتے ہیں۔ انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اردو میں اور علمی اور پالیسی مباحثوں میں فعال طور پر حصہ ڈالتا ہے۔