بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ کی زیر صدارت نئی دہلی میں ایک اعلی سطحی سکیورٹی اجلاس بلانے کی خبر اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ بی جے پی حکومت کا مقبوضہ کشمیر میں حالات معمول پر آنے کا دعوی ایک بار پھر جھوٹا پروپیگنڈا ثابت ہوا۔ اگر واقعی سب کچھ ٹھیک ہوتا تو وزیر داخلہ کو مقبوضہ علاقے کے گورنر لیفٹیننٹ منوج سنہا، انٹیلیجنس بیورو، فوج، سی آر پی ایف، بی ایس ایف اور مقبوضہ جموں و کشمیر پولیس کے اعلیٰ عہدے داروں کو ہنگامی بنیادوں پر جمع کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی۔ یہ اجلاس دراصل اس کشمیری سچائی کو ظاہر کرتا ہے جسے بھارت ہر ممکن کوشش کے باوجود دنیا سے چھپانے میں ناکام رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر آج بھی بارود کے ڈھیر پر بیٹھا ہے۔
بی جے پی گزشتہ پانچ برسوں سے ایک ہی بیانیہ دہرا رہی ہے کہ 5 اگست 2019 کے غیر قانونی انضمام کے بعد مقبوضہ کشمیر میں امن، خوشحالی اور ترقی آئی ہے۔ مگر یہ بیانیہ صرف کاغذی رپورٹوں اور سرکاری بیانات میں موجود ہے۔ زمینی حقائق یکسر مختلف ہیں۔ سری نگر سے راجوری تک آج بھی ہر روز تلاشی کارروائیاں، چھاپے، کرفیو اور انٹرنیٹ کی بندش معمول کی بات ہے۔ نوجوانوں کو بلا وجہ گرفتار اور سیاسی کارکنوں کو خاموش کیا جا رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کو سخت نگرانی میں رکھا گیا ہے۔ کیا یہ وہ نارملسی ہے جس کا دعوی امت شاہ کرتے ہیں؟ اگر امن واقعی قائم ہوتا تو پھر بھارتی افواج کو 24 گھنٹے وادی کے ہر کونے میں مورچہ بندی کی کیا ضرورت پڑتی۔
اجلاس میں انٹیلیجنس بیورو، فوج اور نیم فوجی اداروں کی موجودگی دہلی کی تشویش اور خوف کو ظاہر کرتی ہے۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں راجوری، پونچھ اور شوپیاں میں بڑھتے ہوئے حملوں اور بھارتی فوج کے نقصانات پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ یہ وہی علاقے ہیں جہاں مئی 2025 کے تصادم میں بھارتی افواج کو شدید دھچکا لگا تھا۔ اب ایک بار پھر امت شاہ کی سربراہی میں جعلی آپریشن یا فالس فلیگ منصوبے کی تیاری کی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں، جس کا مقصد پاکستان پر الزام لگا کر داخلی ناکامیوں کو چھپانا ہے۔
بھارتی حکومت کے سارے دعووں کے باوجود مقبوضہ کشمیر دنیا کا سب سے زیادہ فوجی نفری والا علاقہ ہے۔ 8 لاکھ سے زائد فوجیوں کی تعیناتی، ہر دس شہریوں پر ایک سپاہی کی موجودگی اور مستقل سکیورٹی لاک ڈاؤن اس بات کا مظہر ہیں کہ
انٹرنیٹ اور موبائل سروسز کی معطلی، غیر قانونی گرفتاریاں اور میڈیا پر قدغنیں ایک نفسیاتی جنگ کی فضا پیدا کر چکی ہیں۔ ان حالات میں امن کا دعوی صرف ایک سیاسی تماشا معلوم ہوتا ہے۔
بھارت کے اندرونی ذرائع اور عالمی مبصرین دونوں اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ مودی حکومت اکثر سیاسی دباؤ کم کرنے کے لیے جعلی دہشت گردی کے ڈرامے کرتی ہے۔ اب کی بار خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ امت شاہ کی زیر صدارت یہ اجلاس ایک نئے ڈرامے کی تیاری کا حصہ ہے تاکہ کشمیر میں مزید کریک ڈاؤن کیا جا سکے اور عالمی برادری کی توجہ پاکستان کے خلاف جھوٹے الزامات پر مرکوز کی جا سکے۔
یہ مودی، امت شاہ اور راج ناتھ سنگھ کی وہی سیاسی تکون ہے جو مئی 2025 کے تصادم میں ہونے والی بھارتی ناکامیوں کا بدلہ کشمیری عوام سے لینا چاہتی ہے۔
پاکستان نے متعدد بار واضح کیا ہے کہ وہ خطے میں امن چاہتا ہے لیکن امن کی قیمت پر کشمیر کے عوام کے حقوق کی قربانی نہیں دے گا۔ اسلام آباد نے حالیہ مہینوں میں مختلف عالمی فارمز پر بھارت کے جعلی پروپیگنڈے کو بے نقاب کیا ہے۔ پاکستان کی عسکری قیادت نے بھی دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ اگر بھارت نے کوئی نیا ایڈونچر کیا تو جواب پچھلی بار سے زیادہ فیصلہ کن ہوگا۔
یاد رہے کہ پچھلے تصادم میں پاکستان نے سات بھارتی طیارے مار گرائے تھے جس کے بعد مودی حکومت شدید دباؤ کا شکار ہو گئی تھی۔ اب مودی سرکار اپنی اندرونی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے کشمیر میں دوبارہ کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اگر واقعی حالات معمول پر ہیں تو پھر راجوری، پونچھ اور شوپیاں میں جاری فوجی آپریشنز کس چیز کی نشاندہی کرتے ہیں؟ ان علاقوں میں گزشتہ چند ہفتوں سے مسلسل جھڑپیں، ہلاکتیں اور گرفتاریاں جاری ہیں جو کشمیریوں پر بھارتی ریاستی تشدد کی نئی قسط ثابت ہو رہی ہیں۔ یہ علاقے روزانہ فوجی گشت، کرفیو اور گھروں کی تلاشی کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس صورتحال کو کسی بھی جمہوری معیار کے تحت نارمل نہیں کہا جا سکتا۔
مودی حکومت کو اس وقت انتخابی دباؤ، مہنگائی، بے روزگاری اور کسانوں کے احتجاج نے گھیر رکھا ہے جس سے بی جے پی کی ساکھ کمزور ہو چکی ہے۔ ایسے میں مقبوضہ کشمیر میں کشیدگی بڑھانا مودی سرکار کو سیاسی آکسیجن فراہم کرتی ہے۔ یہ بی جے پی کی پرانی حکمت عملی ہے کہ جب مرکزی حکومت پر دباؤ بڑھتا ہے تو وہ کشمیر میں جعلی امن یا جعلی دہشت گردی کا بیانیہ چھیڑ دیتی ہے تاکہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا کر قومی سلامتی کے نعرے پر مرکوز کر دی جائے۔ امت شاہ کی میٹنگ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
اقوام متحدہ اور مغربی طاقتیں بھارت کے ان اقدامات پر خطرناک حد تک خاموش ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں جو دیگر ممالک میں ذرا سی خلاف ورزی پر آواز اٹھاتی ہیں، کشمیر میں مسلسل انسانی حقوق کی پامالی پر محض رسمی بیانات تک محدود ہیں۔ یہی خاموشی بھارت کو مزید طاقتور اور بے خوف بناتی جا رہی ہے۔ پاکستان نے اقوام متحدہ، او آئی سی اور عالمی میڈیا کی توجہ اس جانب متعدد بار مبذول کرائی ہے کہ اگر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کو نہ روکا گیا تو پورا جنوبی ایشیا ایک نئے بحران کی طرف جا سکتا ہے۔
بھارتی حکومت کا ہنگامی اجلاس خود مودی سرکار کے بیانیے کی موت ہے۔ کشمیر میں اگر سب ٹھیک ہوتا تو نئی دہلی میں خوف اور بے چینی کی یہ کیفیت کیوں ہوتی۔ اس سے ایک پیغام ملتا ہے کہ بی جے پی کا نارملسی کا دعوی محض نقاب ہے جس کے پیچھے ظلم، خوف اور عسکری جبر کی تاریک حقیقت چھپی ہے۔ پاکستان کا روزِ اول سے یہی موقف ہے کہ کشمیر کا مسئلہ فوجی طاقت سے نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق سیاسی حل سے ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔ جب تک بھارت اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا، نئی دہلی میں سکون ممکن نہیں اور سری نگر میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
ظہیرال خان ایک مضبوط تعلیمی اور پیشہ ورانہ پس منظر کے ساتھ، وہ بین الاقوامی تعلقات میں مہارت رکھتا ہے اور بڑے پیمانے پر سیکورٹی اور اسٹریٹجک امور کے ماہر کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔
View all posts