تحریکِ لبیک پاکستان (TLP) ایک ایسی مذہبی و سیاسی جماعت ہے جس نے اپنے آغاز سے ہی دین، عقیدۂ ختمِ نبوت، اور شریعت کے نفاذ کو اپنا مرکزی نصب العین قرار دیا۔ اس جماعت کی سیاست مذہبی نعروں، جلوسوں، اور احتجاجوں کے گرد گھومتی ہے۔ خاص طور پر سودی نظام کے خلاف اس کا بیانیہ بہت سخت رہا ہے۔ TLP کے رہنما اکثر اپنی تقاریر میں بینکنگ نظام کو ’’غیراسلامی‘‘ اور ’’حرام‘‘ قرار دیتے ہیں، اور عوام کو سودی لین دین سے مکمل اجتناب کی تلقین کرتے ہیں۔ لیکن اب جو حقائق منظرِ عام پر آئے ہیں، وہ ان کے اس دعوے کو یکسر جھٹلا دیتے ہیں۔
حالیہ تحقیقات میں یہ انکشاف ہوا کہ تحریکِ لبیک پاکستان کے تقریباً سو ایسے بینک اکاؤنٹس موجود ہیں جن میں وہ نہ صرف معمول کے مطابق لین دین کرتے ہیں بلکہ ان اکاؤنٹس پر سودی منافع بھی وصول کرتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق صرف ایک سال کے دوران ان اکاؤنٹس میں پندرہ کروڑ روپے سے زائد کی ٹرانزیکشنز ہوئیں۔ یہ وہی جماعت ہے جو عوام کو سود کے خلاف جہاد کا درس دیتی رہی، لیکن خود اسی نظام سے مالی فائدہ اٹھاتی رہی۔ یہ انکشاف نہ صرف ان کے قول و فعل کے تضاد کو ظاہر کرتا ہے بلکہ ان کے کردار پر بھی سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔
یہ معاملہ محض ایک جماعت تک محدود نہیں۔ یہ ہمارے معاشرے میں ایک عمومی رجحان کی عکاسی کرتا ہے کہ مذہب کو اکثر سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جب دین کو سیاست کا آلہ بنایا جاتا ہے تو اس کی روح مجروح ہو جاتی ہے۔ تحریکِ لبیک پاکستان کے رہنماؤں نے اپنے ماننے والوں کو سود کے خلاف اکسانے کے ساتھ ساتھ بینکوں اور مالیاتی اداروں پر تنقید کے انبار لگائے، مگر عملی زندگی میں وہی بینک ان کے مالی لین دین کا حصہ بنے رہے۔
اس منافقت نے عوام کی آنکھیں کھولنے کے لیے ایک واضح مثال فراہم کر دی ہے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے اکثر وہی لوگ ہوتے ہیں جو خود دنیاداری کے تمام مزے لے رہے ہوتے ہیں۔ جب کسی تحریک یا جماعت کے رہنما اپنے الفاظ پر خود عمل نہیں کرتے، تو ان کی دعوت اپنی اخلاقی حیثیت کھو دیتی ہے۔ یہ تضاد نہ صرف ان کی سیاسی ساکھ کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ مذہب کی سچائی پر بھی ایک بدنما داغ بن جاتا ہے۔
ہمیں اس واقعے سے ایک بڑا سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ دین کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں بلکہ ذاتی کردار اور نیت سے ہے۔ اگر کوئی شخص یا جماعت اسلام کے نام پر عوام سے قربانیوں کا مطالبہ کرے لیکن خود مالی فائدے کے لیے انہی حرکات میں ملوث ہو جنہیں وہ حرام قرار دیتی ہے، تو یہ سراسر فریب ہے۔
عوام کو چاہیے کہ وہ مذہبی نعرے سن کر اندھی تقلید نہ کریں، بلکہ تحقیق کریں کہ ان دعووں کے پیچھے سچائی کتنی ہے۔ کسی بھی جماعت یا رہنما کی اصل پہچان اس کے الفاظ سے نہیں بلکہ اس کے اعمال سے ہوتی ہے۔ تحریکِ لبیک پاکستان کے سودی اکاؤنٹس کا معاملہ اسی دوہرے معیار کا زندہ ثبوت ہے کہ
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ دین کا پیغام سادگی، اخلاص، اور دیانت ہے۔ اسلام منافقت سے پاک ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ جب مذہب کو ذاتی مفاد یا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو اس کا نقصان صرف سیاست کو نہیں بلکہ ایمان اور سماجی اعتماد کو بھی پہنچتا ہے۔ ہمیں ایسے ہر طرزِ عمل کو پہچاننا اور اس کے خلاف آواز اٹھانا ہوگی تاکہ مذہب کا نام دوبارہ کسی مفاد پرست کے ہاتھوں بدنام نہ ہو۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
مصنف ایک معزز میڈیا پیشہ ور ہیں جو نیشنل نیوز چینل ایچ ڈی کے چیف ایگزیکٹو اور "دی فرنٹیئر انٹرپشن رپورٹ" کے ایگزیکٹو ایڈیٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ان سے پر رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔
View all posts