پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگر دہائیوں سے ہماری زراعت روایتی طریقوں، محدود وسائل اور موسمی انحصار کی قید میں رہی۔ تاہم چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے دوسرے مرحلے نے زراعت کے اس جمود کو توڑ دیا ہے۔ اب جب سی پیک فیز ٹو عملی صورت اختیار کر رہا ہے تو پاکستان کی زراعت میں جدید ٹیکنالوجی، تحقیق اور سرمایہ کاری کے ذریعے ایک نئی روح پھونکی جا رہی ہے۔ یہ صرف کسانوں کے لیے سہولت نہیں بلکہ قوم، معیشت، دیہی ترقی اور فوڈ سکیورٹی کے لیے ایک پائیدار بنیاد ہے۔
چین کی جدید فارمنگ ٹیکنالوجی نے پاکستان کے زرعی شعبے میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ چین کے تعاون سے متعارف کرائے گئے بائیو ٹیک ہائی برڈ اقسام اور ڈرپ ایریگیشن جیسے نظاموں نے فی ایکڑ پیداوار میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔ اب وہی زمین جو پہلے کم پیداوار دیتی تھی، جدید مشینری اور بہتر کھادوں کی بدولت دگنی فصل دے رہی ہے۔ کسانوں کے لیے یہ ایک نئی صبح کی مانند ہے۔ جدید مشینری نے محنت کو کم اور پیداوار کو زیادہ کر دیا ہے۔ پہلے جہاں ایک ایکڑ زمین کی تیاری میں دن لگتے تھے اب جدید ٹریکٹرز اور ہار ویسٹرز کے استعمال سے یہ کام چند گھنٹوں میں مکمل ہو جاتا ہے۔ یہ تبدیلی صرف ٹیکنالوجی نہیں ہے بلکہ ایک مکمل طرزِ فکر کی اصلاح ہے۔ پاکستان کی معیشت تیزی سے ترقی دے رہی ہے۔
سی پیک فیز ٹو کے تحت چین سے جدید بیج اور کھاد کی ٹیکنالوجی پاکستان منتقل ہو رہی ہے۔ چینی زرعی ماہرین پاکستانی موسمی حالات کے مطابق بیج تیار کر رہے ہیں جو کم پانی میں زیادہ پیداوار دیتے ہیں اور کیڑوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔ اس سے فصلوں کی مقدار اور کوالٹی بھی بہتر ہو رہی ہے۔ بیجوں کی جدت سے کسانوں کی آمدنی میں اضافہ یقینی ہو گیا۔ جہاں پہلے ایک کسان صرف اپنی ضرورت پوری کرتا تھا، اب وہ برآمدات کے قابل فصل تیار کر رہا ہے۔ یہ تبدیلی زراعت کو محض روزگار نہیں بلکہ ایک منافع بخش کاروبار میں بدل رہی ہے۔
پاکستان پانی کے بحران سے دوچار ملک ہے مگر سی پیک کے تحت جدید آبپاشی نظام نے امید کی ایک کرن پیدا کی ہے۔ ڈرِپ ایریگیشن اور سپرنکلر سسٹم کے ذریعے پانی کا ضیاع کم سے کم ہو گیا۔ اب پانی براہ راست جڑوں تک پہنچتا ہے جس سے ایک طرف پانی کی بچت ہوتی ہے تو دوسری جانب فصلیں بہتر طور پر بڑھتی ہیں۔
پنجاب اور سندھ کے کئی اضلاع میں چینی ماہرین کی نگرانی میں یہ نظام کامیابی سے چل رہا ہے۔ اس ماڈل کو بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے نیم خشک علاقوں میں بھی وسعت دی جا رہی ہے تاکہ ملک بھر میں زرعی ترقی کا توازن قائم ہو۔
سی پیک نے پاکستانی زراعت کے لیے ایک نیا دروازہ کھولا ہے۔ چین کی کھربوں ڈالر کی خوراکی منڈی میں پاکستان کے پھل، سبزیاں، چاول اور فوڈ پراسیسڈ مصنوعات اب براہ راست چین کو برآمد ہو رہی ہیں۔ صرف پاکستانی چاول کی برآمدات میں 30 فیصد اضافہ اس بات کا واضح ثبوت ہے۔ یہ برآمدات نہ صرف اربوں ڈالر کا زرمبادلہ فراہم کریں گی بلکہ مقامی کسانوں کو بھی عالمی منڈیوں تک رسائی دلائیں گی۔ گویا اب پاکستان کا کسان صرف مقامی بازار تک محدود نہیں رہا بلکہ عالمی تجارتی زنجیر کا حصہ بن چکا ہے۔
پاکستان نے سی پیک منصوبوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر کسانوں کے لیے آسان قرضے اور سبسڈی اسکیمیں متعارف کرائی ہیں۔ چھوٹے کسانوں کو اب جدید مشینری، کھاد اور بیج خریدنے میں آسانی ہو گئی ہے۔ بینکوں نے زرعی قرضوں کی منظوری کے عمل کو بھی سہل بنا دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں چھوٹے کسان جو پہلے بڑی زمیندار اشرافیہ کے رحم و کرم پر تھے اب خودمختار ہو رہے ہیں۔ یہ خوشحالی صرف معیشت نہیں بلکہ معاشرتی استحکام کے لیے بھی ایک مثبت پیشرفت ہے۔
زراعت ہمیشہ سے پاکستان کی دیہی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی رہی ہے۔
سی پیک فیز ٹونے اس کو مزید مضبوط کر دیا ہے۔
زرعی اصلاحات اور انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری نے دیہی علاقوں میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے ہیں۔ سڑکوں، کولڈ سٹوریجز، فوڈ پراسیسنگ یونٹس اور مارکیٹ لنکیجز کے قیام سے کسانوں کا معیارِ زندگی بلند ہو رہا ہے۔ یہ تمام عوامل پاکستان کو خود کفالت کی جانب لے جا رہے ہیں جہاں ہم اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ فوڈ ایکسپورٹ کی بنیاد پر معیشت کو مستحکم بنا سکیں گے۔
دنیا بھر میں فوڈ سکیورٹی ایک اہم چیلنج بن چکا ہے۔ پاکستان نے سی پیک کے ذریعے جدید فوڈ اسٹوریج سسٹم قائم کرنے کا آغاز کیا ہے۔ یہ سٹوریج سسٹمز فصلوں کو ضائع ہونے سے بچائیں گے اور ہنگامی حالات میں غذائی قلت پر قابو پانے میں مدد دیں گے۔ اس کے علاوہ فوڈ پراسیسنگ اور پیکجنگ کے جدید یونٹس غذائی معیار کو بہتر بنا رہے ہیں، جس سے برآمدی صلاحیت بھی بڑھ رہی ہے۔ یوں پاکستان ایک محفوظ، مستحکم اور پائیدار فوڈ چین کی طرف بڑھ رہا ہے۔
زراعت میں خواتین کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے مگر اب اسے باضابطہ تسلیم کیا جا رہا ہے۔ سی پیک کے تحت ویلیو ایڈڈ فوڈ انڈسٹری میں خواتین کو تربیت، سرمایہ اور روزگار کے مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں۔ زرعی کوآپریٹو ادارے اور فوڈ پیکجنگ یونٹس میں خواتین کی شرکت سماجی ترقی کا نیا باب رقم کر رہی ہے۔ یہ نہ صرف معیشت کو مضبوط کر رہا ہے بلکہ دیہی خواتین کو خودمختار بنا کر صنفی مساوات کے فروغ میں بھی کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔
سی پیک میں پاکستانی جامعات اور تحقیقی اداروں کو چینی ماہرین کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ مشترکہ تحقیقی منصوبوں کے ذریعے نئے فیصلے، جدید بیج اور آبپاشی کے سمارٹ نظام تیار کیے جا رہے ہیں۔ یہ تحقیق براہ راست کسانوں تک پہنچ رہی ہے، جس سے زراعت زیادہ سائنسی اور منافع بخش بن رہی ہے۔ تحقیق کی یہ لہر پاکستان کو جدید زرعی علم اور ٹیکنالوجی میں خودمختار بنانے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔
زراعت اب صرف کھیت تک محدود نہیں رہی۔ فوڈ پراسیسنگ، پیکجنگ اور ویلیو ایڈڈ پروڈکٹس کے شعبے تیزی سے ابھر رہے ہیں۔ انڈسٹریل زونز میں فوڈ پراسیسنگ یونٹس کے قیام سے پاکستانی مصنوعات کو بین الاقوامی معیار پر تیار کیا جا رہا ہے۔ یہ نہ صرف روزگار کے مواقع بڑھائے گا بلکہ پاکستان کو زرعی برآمدات کا مرکز بھی بنائے گا۔ یوں سی پیک زراعت کو صنعتی ترقی کے راستے پر لے آیا ہے، جہاں کھیت سے لے کر فیکٹری اور عالمی مارکیٹ تک ایک مربوط نظام قائم ہو چکا ہے۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
حسین جان کے علمی مفادات بین الاقوامی سلامتی، جغرافیائی سیاسی حرکیات، اور تنازعات کے حل میں ہیں، خاص طور پر یورپ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے۔ انہوں نے عالمی تزویراتی امور سے متعلق مختلف تحقیقی فورمز اور علمی مباحثوں میں حصہ ڈالا ہے، اور ان کا کام اکثر پالیسی، دفاعی حکمت عملی اور علاقائی استحکام کو تلاش کرتا ہے۔
View all posts
