Nigah

شنکر، متقی ملاقات کھوئی ساکھ واپسی کی کوشش

شنکر، متقی ملاقات کھوئی ساکھ واپسی کی کوشش

نئی دہلی میں بھارت کے وزیرِ خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر اور افغانستان کے قائم مقام وزیرِ خارجہ مولوی امیر خان متقی کے درمیان 10 اکتوبر 2025 کو ہونے والی ملاقات بظاہر سفارتی نوعیت کی ایک معمولی پیشرفت تھی، مگر در حقیقت یہ جنوبی ایشیائی سیاست میں بھارت کی ایک نئی چال کا مظہر ہے۔

2021 میں امریکی انخلا کے بعد جب افغانستان میں طالبان نے اقتدار سنبھالا تو بھارت نے اپنے سفارتی عملے کو واپس بلا کر کابل میں اپنی موجودگی تقریباً ختم کر دی تھی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جب پاکستان، چین، روس اور ایران نے طالبان کے ساتھ متوازن تعلقات قائم کر لیے تو نئی دہلی نے یہ محسوس کیا کہ اس کی خطے میں اسٹریٹجک گہرائی تیزی سے معدوم ہو رہی ہے۔ متقی۔شنکر ملاقات اسی پس منظر میں بھارت کی کھوئی ہوئی حیثیت کو بحال کرنے کی ایک کوشش کے طور پر سامنے آئی ہے۔

ملاقات کے بعد بھارتی وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ افغان عوام کے ساتھ بھارت کے گہرے ثقافتی و تاریخی تعلقات ہیں۔ یہ بیان دراصل ایک نرم سفارتی انداز میں بھارت کی پرانی حکمتِ عملی کی یاد دہانی تھی، جس کے تحت بھارت ہمیشہ افغانستان کو پاکستان کے خلاف ایک تزویراتی محاذ کے طور پر استعمال کرتا رہا ہے۔ ماضی میں بھارتی خفیہ ایجنسی را نے افغانستان کی سرزمین کو پاکستان مخالف کارروائیوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیا۔ کئی مرتبہ پاکستان نے ٹھوس شواہد کے ساتھ بھارتی نیٹ ورک کو بے نقاب کیا جو افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور سیاسی عدم استحکام کو ہوا دیتے رہے۔

بھارت کی جانب سے افغان ثقافت اور تعلیم کے نام پر مختلف منصوبوں کا آغاز کیا گیا، جن کے پس پردہ مقاصد صرف سفارتی ہمدردی تک محدود نہیں تھے بلکہ ان کا مقصد افغانستان کے اندر ایک ایسا سماجی و سیاسی طبقہ پیدا کرنا تھا جو دہلی کے مفادات کا محافظ بن سکے۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد بھارت کا یہ پورا نیٹ ورک غیر مؤثر ہو گیا، جس سے بھارتی سرکار کو شدید سفارتی دھچکا لگا۔

nigah علاقائی دہشت گردی کے خطرے

جے شنکر نے ملاقات کے دوران علاقائی دہشت گردی کے خطرے پر زور دیا، جس کا مطلب واضح طور پر پاکستان کی طرف اشارہ تھا۔ بھارت ہمیشہ اپنی ناکامیوں کو پاکستان کے سر ڈال کر عالمی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ تاہم حقائق اس کے برعکس ہیں۔ پاکستان نے بارہا عالمی سطح پر شواہد پیش کیے کہ بھارتی خفیہ ادارے افغانستان میں تخریب کاری کے مراکز چلا رہے تھے۔ کلبھوشن یادیو کیس اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ بھارت نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کی مجموعی سلامتی کے لیے بھی خطرہ بن چکا ہے۔ بھارت کی جانب سے دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر یہ بیان بازی دراصل طالبان حکومت پر نرم دباؤ کی حکمتِ عملی ہے۔ نئی دہلی یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ افغانستان کے استحکام کے لیے فکر مند ہے، مگر حقیقت میں وہ کابل کو پاکستان کے خلاف ایک نئے محاذ میں تبدیل کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔

بھارت کے ترقیاتی منصوبوں جیسے سلمہ ڈیم (افغان انڈیا فرینڈشپ ڈیم) کو نئی دہلی ہمیشہ اپنی کامیاب خارجہ پالیسی کی مثال کے طور پر پیش کرتا رہا، جبکہ زمینی حقائق کے مطابق ان منصوبوں کا مقامی سطح پر خیر مقدم نہیں کیا گیا۔ افغان ماہرین اور عوام نے ان منصوبوں کو بھارت کی سیاسی نمائش قرار دیا۔ سلمہ ڈیم کی پائیداری، پانی کے منصفانہ استعمال اور ماحولیاتی اثرات پر افغان ماہرین کے سنگین تحفظات موجود ہیں۔ مزید یہ کہ طالبان حکومت کے بعد یہ منصوبے عملاً ٹھپ ہو چکے ہیں، جو ظاہر کرتا ہے کہ بھارت کا افغانستان کے ساتھ تعاون محض سیاسی نعرے بازی سے زیادہ کچھ نہیں۔

جنوبی ایشیا کے کئی ممالک اب بھارت کی علاقائی بالادستی سے انکار کر چکے ہیں۔ نیپال، سری لنکا اور بنگلہ دیش جیسے ممالک نے اپنی آزاد خارجہ پالیسی اپناتے ہوئے چین کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دی ہے۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے ساتھ بھی بھارت کی راہیں جدا ہو چکی ہیں، کیونکہ طالبان نہ تو بھارتی شرائط قبول کرنے کو تیار ہیں اور نہ ہی دہلی کے سیاسی ایجنڈے کو۔ اس صورتحال نے بھارت کو ایک ایسے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے جہاں اسے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کے لیے دوستی اور تعاون کے نعروں کے پیچھے چھپنا پڑ رہا ہے۔

جے شنکر اور متقی ملاقات اسی مایوس کن پس منظر کا حصہ ہے۔ بھارت کو یہ احساس ہو چکا ہے کہ جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کی بساط بدل چکی ہے۔

چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے، پاکستان کا سی پیک اور وسط ایشیا کی ابھرتی ہوئی معیشتیں دہلی کے اکیلے رہنما بننے کے خواب کو چکنا چور کر چکی ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان اور چین نے افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو حقیقت پسندانہ بنیادوں پر استوار کیا ہے۔ پاکستان نے متعدد بار کہا ہے کہ افغانستان کا استحکام پورے خطے کے امن و ترقی کے لیے ضروری ہے۔ یہی موقف چین کے بی آر آئی منصوبوں میں بھی جھلکتا ہے۔ چین کا مقصد خطے میں اقتصادی انضمام اور سلامتی کا فروغ ہے۔

پاکستان نے طالبان حکومت کے ساتھ عملی تعاون پر مبنی پالیسی اختیار کی۔ سرحدی تحفظ، تجارت، توانائی اور ٹرانزٹ راہداریوں کے ذریعے دونوں ملکوں نے تعلقات کو نئے مرحلے میں داخل کیا۔ اس کے مقابلے میں بھارت کی حکمتِ عملی محض سیاسی اعلانات اور فوٹو سیشن تک محدود رہی۔ چین نے بھی افغان قیادت کے ساتھ مسلسل رابطے رکھے اور اقتصادی منصوبوں کی صورت میں ٹھوس تعاون فراہم کیا۔ ان اقدامات نے بھارت کی خطے میں سفارتی تنہائی کو مزید واضح کر دیا ہے۔

افغان۔بھارت وزرائے خارجہ کی ملاقات کو بھارتی میڈیا نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا، جیسے دہلی نے افغانستان میں اپنی واپسی کا آغاز کر دیا ہو۔ مگر یہ دعویٰ زمینی حقیقت سے بہت دور ہے۔ طالبان حکومت بھارت کے لیے نہ تو قابلِ اعتماد ہے اور نہ ہی بھارت پر انحصار کرنے کو تیار۔ افغان عوام بھارت کے ماضی کے کردار سے بخوبی واقف ہیں کہ اس نے کس طرح افغانستان کو پاکستان کے خلاف پراکسی میدان بنایا۔

طالبان حکومت کسی بھی ملک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات چاہتی ہے، نہ کہ کسی سیاسی دباؤ یا مشروط امداد کے ذریعے۔ لہٰذا نئی دہلی کی موجودہ کوششیں سفارتی تصویر سازی کے سوا کچھ نہیں۔ دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی ملاقات سفارتی مکالمے تک محدود تھی، جو بھارت کے اندرونی اضطراب کی عکاسی کرتی ہے۔ نئی دہلی سرکار اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتی کہ اس کا خطے پر اثر تیزی سے زوال پذیر ہے۔

افغانستان میں اس کی واپسی کی کوشش محض ایک علامتی اقدام ہے جو زمینی حقائق کے سامنے زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی۔ جنوبی ایشیا میں اب طاقت کا مرکز بدل چکا ہے۔ پاکستان، چین، روس اور وسط ایشیائی ریاستیں ایک نئے عالمی نظام کی تشکیل میں مصروف ہیں، جس میں تعاون، استحکام، احترام اور خود مختاری بنیادی اصول ہیں۔

بھارت اگر باقی خطے میں اپنا کردار بحال کرنا چاہتا ہے تو اسے پاکستان مخالف پالیسیوں اور پراکسی سیاست سے نکل کر حقیقت پسندانہ سفارت کاری اختیار کرنا ہوگی۔ بصورتِ دیگر جے شنکر۔متقی ملاقاتیں صرف وقتی شور پیدا کریں گی، مگر بھارت کا کھویا ہوا اثر و رسوخ بحال نہیں کر سکیں گی۔

اعلان دستبرداری
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • ڈاکٹر حمزہ خان

    ڈاکٹر حمزہ خان نے پی ایچ ڈی کی ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں، اور یورپ سے متعلق عصری مسائل پر توجہ مرکوز کرتا ہے اور لندن، برطانیہ میں مقیم ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔