Nigah

عبوری افغان حکومت کی الزام تراشی فریب پر مبنی بیانیہ بے نقاب

43 ہزار امریکی ڈالر

پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ سرحدی جھڑپوں کے بعد 12 اکتوبر 2025 کو عبوری افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک پریس کانفرنس میں پاکستان کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔ ان کے مطابق طالبان فورسز نے پاکستانی چوکیوں کو تباہ کیا اور درجنوں سکیورٹی اہلکاروں کو شہید کر دیا۔ تاہم ان دعوؤں کے نہ کوئی شواہد پیش کیے گئے، نہ آزاد ذرائع سے تصدیق ہوئی۔ یہ بیانیہ دراصل طالبان کے پرانے فریب اور انکار کی سیاست کی ایک نئی قسط ہے جس میں اپنی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔

ذبیح اللہ مجاہد کا یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ عبوری افغان حکومت اپنی داخلی ناکامیوں، بدامنی اور دہشت گرد گروہوں پر کنٹرول کے فقدان کو پاکستان مخالف بیانیے کے پردے میں چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔

یہ کوئی پہلی بار نہیں کہ کابل سے پاکستان کے خلاف الزام تراشی کی گئی ہو۔ طالبان ماضی میں بھی اپنی انتظامی ناکامیوں کو بیرونی دشمنوں کے کھاتے میں ڈال کر عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ ذبیح اللہ مجاہد کا سرحدی کنٹرول کا دعوی اس دوہرے معیار کی جھلک ہے، کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ افغان سرزمین اب بھی ٹی ٹی پی، بی ایل اے، القاعدہ اور دیگر تنظیموں کے لیے سب سے بڑا محفوظ ٹھکانہ بنی ہوئی ہے۔

طالبان کی جانب سے بارہا یقین دہانیاں دی گئیں کہ افغانستان کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پاکستان کی جانب سے کئی بار شواہد فراہم کیے گئے کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے ملحقہ افغان صوبوں میں 60 سے زائد ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کے کیمپ فعال ہیں۔ ان میں دہشت گردوں کی تربیت، مالی معاونت اور حملوں کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔

اسلام آباد نے نہ صرف ان کیمپوں کی نشاندہی کی بلکہ ان کے جغرافیائی محلِ وقوع بھی کابل کے ساتھ شیئر کیے۔ تاہم افغان حکومت نے انہیں ختم کرنے کے بجائے جی ڈی آئی کی نگرانی میں ان کا دائرہ وسیع ہونے دیا۔ یہ خاموشی محض نااہلی نہیں بلکہ غیر اعلانیہ شراکت داری کی نشانی ہے۔

ٹی ٹی پی کا سربراہ نور ولی محسود آج بھی کابل میں حکومتی سرپرستی میں موجود ہے۔ رپورٹس کے مطابق وہ ہر ماہ 43 ہزار امریکی ڈالر کی فنڈنگ وصول کرتا ہے، جو نہ صرف طالبان حکومت کے دوہرے معیار بلکہ ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کا واضح ثبوت ہے۔

آج طالبان کے زیر انتظام افغانستان دہشت گرد تنظیموں کے لیے کھلی پناہ گاہ بن چکا ہے۔ پاکستانی سکیورٹی اداروں کے مطابق اب پاکستان پر حملہ آور ہونے والے گروہوں کی 80 فیصد تعداد افغان شہریوں پر مشتمل ہے۔ یہ اعداد ظاہر کرتے ہیں کہ افغان حکومت دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے بجائے انہیں دراندازی کی سہولت فراہم کر رہی ہے۔

یہ بات مزید تشویشناک اس لیے ہے کہ امریکہ اور نیٹو کے انخلا کے بعد افغانستان میں سات ارب ڈالر مالیت کا اسلحہ طالبان کے قبضے میں رہ گیا۔ یہی اسلحہ اب ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کے دہشت گرد استعمال کر رہے ہیں۔ ایم 16 رائفلز، ایم 4 کاربائنز، نائٹ وژن ڈیوائسز اور تھرمل آپٹکس جیسا جدید ساز و سامان افغان کمانڈرز کی جانب سے دہشت گرد گروپوں کو فروخت کیا جا رہا ہے۔

ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی

پاکستانی فورسز کی کارروائیوں میں گزشتہ برس 207 سے زائد افغان شہری مارے گئے جنہیں دہشت گردی کے مختلف واقعات میں ملوث پایا گیا۔ ان میں سے اکثر کی شناخت نام اور پتے کے ساتھ ثابت کی گئی۔ یہ اعداد و شمار اس بات کی تصدیق ہیں کہ عبوری افغان حکومت کے "افغان سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی” کے دعوے محض زبانی جمع خرچ ہیں۔

یہی نہیں، بی این اے کے دہشت گرد کمانڈر رحمان گل اور مشتاق بھی 2025 میں افغانستان میں ہلاک کیے گئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان حکومت بلوچ علیحدگی پسندوں کو بھی پناہ فراہم کر رہی تھی۔

افغان سرزمین سے ابھرنے والی دہشت گردی کے نتیجے میں پاکستان کے سرحدی علاقے شدید متاثر ہوئے۔
سال 2024 میں خیبر پختونخوا میں قانون نافذ کرنے والے 358 اہلکار شہید اور 801 زخمی ہوئے، جبکہ 215 عام شہری اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔
سال 2025 میں نقصان مزید بڑھا   381 اہلکار شہید اور 922 زخمی ہوئے، جبکہ 184 عام شہری شہید اور 297 زخمی ہوئے۔

یہ اعداد و شمار کسی دعوے نہیں بلکہ اس خونی کھیل کا ثبوت ہیں جس میں افغان حکومت کی خاموشی شریکِ جرم ہے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے اپنی پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ داعش خراسان (ISKP) کے رہنما پاکستان میں پناہ گزین ہیں۔ یہ الزام سراسر بے بنیاد ہے کیونکہ اقوام متحدہ اور علاقائی رپورٹس واضح طور پر ظاہر کرتی ہیں کہ داعش کی سرگرمیاں ننگرہار، کنڑ اور کابل میں ہیں، نہ کہ پاکستان میں۔

طالبان دراصل داعش کے خلاف کارروائیاں اس لیے نہیں کرتے کہ وہ ان کے اقتدار کے لیے خطرہ ہے، مگر دوسری جانب وہ ٹی ٹی پی، بی ایل اے، القاعدہ اور ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ETIM) جیسے گروہوں کو پاکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک کے خلاف پراکسی کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ یہی وہ دوہرا معیار ہے جو طالبان کے تمام امن کے دعوؤں کو بے معنی بنا دیتا ہے۔

داعش کے خلاف کارروائی اس لیے کی جاتی ہے کیونکہ وہ طالبان کے لیے نظریاتی اور سیاسی خطرہ ہے۔ لیکن ٹی ٹی پی اور دیگر شدت پسند گروہ چونکہ ان کے نظریاتی حلیف ہیں، لہٰذا انہیں کھلی چھوٹ حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خوست، کنڑ اور پکتیکا جیسے صوبوں میں ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کے رہنما آزادانہ سرگرم ہیں۔

یہ صورتحال طالبان کے "گڈ گورننس” اور "امن” کے دعوؤں کی مکمل نفی کرتی ہے۔

پاکستان نے عبوری افغان حکومت کے بے بنیاد الزامات کو مسترد کرتے ہوئے واضح موقف اختیار کیا کہ

"ہم دفاعی نوعیت کے اقدامات کر رہے ہیں۔ کسی جارحیت کا ارادہ نہیں رکھتے۔”

پاکستان کی جانب سے کی گئی کارروائیاں انٹیلیجنس کی بنیاد پر مخصوص دہشت گرد ٹھکانوں کے خلاف کی گئیں جن سے سرحدی علاقوں میں مسلسل حملے کیے جا رہے تھے۔ یہ دفاعی کارروائیاں صرف پاکستان کی خود مختاری کے تحفظ کے لیے ہیں۔

اسلام آباد اب بھی مکالمے، باہمی احترام اور استحکام کا خواہاں ہے، مگر یہ بات بھی واضح کر چکا ہے کہ جھوٹے الزامات، پروپیگنڈا یا سرحد پار دہشت گردی پر خاموشی اختیار نہیں کی جائے گی۔

عبوری افغان حکومت کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنی اندرونی ناکامیوں یعنی خواتین کے حقوق کی پامالی، میڈیا پر پابندیوں اور معاشی ابتری سے توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان کو موردِ الزام ٹھہراتی ہے۔ ہر بار جب کابل میں دھماکہ ہوتا ہے یا کوئی عسکری ناکامی سامنے آتی ہے تو فوراً الزام اسلام آباد پر لگا دیا جاتا ہے۔

یہ رویہ نہ صرف خطے میں کشیدگی بڑھا رہا ہے بلکہ افغان عوام کے لیے مزید تنہائی اور غربت کا باعث بن رہا ہے۔ پاکستان کی جانب سے دکھایا جانے والا تحمل دراصل اس کے امن کے عزم کی علامت ہے جسے عالمی برادری تسلیم کرتی ہے۔

ذبیح اللہ مجاہد کے الزامات اور طالبان حکومت کا پروپیگنڈا حقیقت کو بدل نہیں سکتا۔ افغانستان کی سرزمین سے دہشت گردوں کی سرگرمیاں، ان کے ٹھکانے اور ان کے حملے اس بات کے ناقابلِ تردید ثبوت ہیں کہ طالبان اپنے وعدوں پر قائم نہیں۔

اگر کابل واقعی امن چاہتا ہے تو اسے ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کے ٹھکانے ختم کرنے ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کو مالی و عسکری امداد دینا بند کرنا ہوگی اور اپنی سرزمین کو کسی ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال ہونے سے روکنا ہوگا۔

پاکستان امن کا خواہاں ہے لیکن اپنی علاقائی سالمیت کے دفاع سے کبھی دستبردار نہیں ہوگا۔ پروپیگنڈا وقتی بیانیہ ہو سکتا ہے مگر زمینی حقیقت ہمیشہ اپنا وزن خود ثابت کرتی ہے۔

اعلان دستبرداری
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • munir nigah

    ڈاکٹر محمد منیر ایک معروف اسکالر ہیں جنہیں تحقیق، اکیڈمک مینجمنٹ، اور مختلف معروف تھنک ٹینکس اور یونیورسٹیوں میں تدریس کا 26 سال کا تجربہ ہے۔ انہوں نے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس اینڈ سٹریٹیجک سٹڈیز (DSS) سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔