پاکستان کرہ ارض کے ان ممالک میں سے ہے جنہیں قدرت نے معدنی دولت سے غیر معمولی طور پر نوازا ہے۔ شمالی علاقوں کی برف پوش وادیوں سے لے کر بلوچستان کے خشک پہاڑی سلسلوں تک زمین کے اندر بے شمار قیمتی دھاتیں تانبہ، سونا، کوبالٹ، نکل، لیتھیم اور دیگر ریئر ارتھ منرلز چھپے ہیں۔ ان وسائل کی معاشی و تزویراتی اہمیت صرف پاکستان کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے غیر معمولی ہے۔ خصوصا اس وقت جب دنیا توانائی کی نئی دوڑ میں داخل ہو چکی ہے۔ ریئر ارتھ منرلز (Rare Earth Minerals) وہ دھاتیں ہیں جو جدید الیکٹرک گاڑیوں، دفاعی ٹیکنالوجی، سیمی کنڈکٹرز، موبائل فونز اور خلائی آلات کے لیے ناگزیر ہیں۔ چین، امریکہ اور آسٹریلیا جیسے ممالک ان پر اپنی صنعتوں کا انحصار رکھتے ہیں۔ اور اب پاکستان بھی ان عالمی سپلائی چینز میں ایک ابھرتا ہوا ممکنہ کردار بن کر سامنے آ رہا ہے۔
پاکستان کے مختلف خطوں میں معدنی وسائل کے کثیر ذرائع ذخائر دریافت ہو چکے ہیں۔ گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ میں ایسے معدنی ذخائر موجود ہیں جو عالمی معیشت میں گیم چینجر ثابت ہو سکتے ہیں۔ ہمالیائی وادیوں کے دامن میں تانبے، سونے اور ریئر ارتھ منرلز کے وسیع ذخائر ہیں۔ بلوچستان کی پہاڑیوں میں لیتھیم اور کرومائیٹ چھپے ہیں۔ جو اربوں بیٹریوں کے لیے بنیادی توانائی فراہم کر سکتے ہیں۔ ریکوڈک، سیندک، تھرکول، چترال اور خضدار جیسے علاقے مستقبل میں مادی ترقی کے بڑے مراکز کے طور پر ابھر سکتے ہیں۔
پاکستان کے کوبالٹ، نکل اور بیریلیم کے ذخائر عالمی سطح پر توانائی کی تبدیلی (Energy Transition) میں مرکزی حیثیت اختیار کر سکتے ہیں۔ یہ وسائل برقی گاڑیوں اور قابل تجدید توانائی کی ٹیکنالوجی کے لیے ریڑھ کی ہڈی بن رہے ہیں۔
ریئر ارتھ منرلز میں نیوڈی میٹم، پرسیوڈی میئم، لانتھینم، سیریم اور یٹریم جیسی دھاتیں شامل ہیں۔ جو جدید ٹیکنالوجی کے لیے ناگزیر ہیں۔ عالمی منڈی میں ان دھاتوں کی طلب روز بروز بڑھ رہی ہے۔ خاص طور پر چین کی اجارہ داری کے بعد دنیا متبادل ذرائع تلاش کر رہی ہے۔ پاکستان کے پاس ایسے ذخائر موجود ہیں جو جنوبی ایشیا کو توانائی اور ٹیکنالوجی کے نئے مرکز میں بدل سکتے ہیں۔ ان معدنیات کی ترقی نہ صرف ملکی برآمدات کو بڑھا سکتی ہے بلکہ پاکستان کو عالمی سپلائی چینز میں ایک سٹریٹیجک شراکت دار بنا سکتی ہے۔
بلوچستان کو پاکستان کی معدنی ترقی کا دل کہا جا سکتا ہے۔ ریکو ڈک منصوبہ اس حقیقت کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ جو عالمی سرمایہ کاری کا مرکز بن چکا ہے۔ یہ منصوبہ تانبے اور سونے کے ذخائر کی ترقی کے ذریعے اربوں ڈالر کی برآمدی صلاحیت رکھتا ہے۔
بلوچستان میں لیتھیم کے ذخائر مستقبل میں الیکٹرک گاڑیوں کی عالمی مارکیٹ کے لیے انجن کی حیثیت اختیار کر سکتے ہیں۔ عالمی کمپنیوں کی دلچسپی اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان اس شعبے میں شفاف، سائنسی اور پائیدار ترقی کی سمت بڑھ رہا ہے۔
ریئر ارتھ منرلز صرف صنعتی نہیں بلکہ دفاعی اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں بھی بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ جدید میزائل سسٹمز، ریڈار، سیٹلائٹ اور مصنوعی ذہانت پر مبنی آلات انہی دھاتوں سے چلتے ہیں۔
پاکستان اگر ان وسائل کو سائنسی بنیادوں پر استعمال کرے تو نہ صرف توانائی میں خود کفالت حاصل کر سکتا ہے بلکہ دفاعی اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں بھی ایک اہم کھلاڑی بن سکتا ہے۔ کوبالٹ، بریلیئم اور گریفائٹ جیسے عناصر پاکستان کو "ڈیجیٹل دفاعی ٹیکنالوجی” کا مستقبل فراہم کر سکتے ہیں۔
دنیا تیزی سے فوسل فیول سے نکل کر صاف توانائی (Clean Energy) کی طرف بڑھ رہی ہے۔ شمسی توانائی، ونڈ پاور اور الیکٹرک گاڑیاں اسی تبدیلی کی علامت ہیں۔ ان تمام ٹیکنالوجیز میں ریئر ارتھ منرلز کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان کے پاس کھربوں ڈالر مالیت کے ریئر ارتھ منرلز موجود ہیں جو عالمی توانائی کی پائیداری میں کلیدی شرکت دار بن سکتے ہیں۔ اگر پاکستان عالمی گرین الائنسز کا حصہ بن جائے تو وہ نہ صرف اپنی معیشت مضبوط کرے گا بلکہ دنیا کے توانائی کے مستقبل کو بھی محفوظ بنانے میں کردار ادا کرے گا۔
پاکستان میں معدنی ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ انفراسٹرکچر کی کمزوری، پالیسی کی غیر یقینی اور تکنیکی وسائل کی کمی ہے۔ اگر حکومت شفاف قوانین، سرمایہ کار دوست پالیسیوں اور تکنیکی تربیت پر توجہ دے تو ملک معدنی ترقی میں انقلاب لا سکتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ معدنی ترقی کو مختصر مدتی منصوبہ نہیں بلکہ طویل مدتی پائیدار پالیسی کے طور پر دیکھا جائے۔ مقامی کمیونٹیز کو اس ترقی کا حصہ بنانا، ماحولیاتی توازن کو یقینی بنانا اور بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے شفاف مواقع فراہم کرنا مستقبل کی کامیابی کی کنجی ہے۔
دنیا بھر کی کثیر القومی کمپنیاں پاکستان کے معدنی شعبے میں دلچسپی ظاہر کر رہی ہیں۔ آسٹریلیا، چین، ترکی، سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے سرمایہ کار پاکستان کے منصوبوں میں شامل ہو رہے ہیں۔
ریکوڈک منصوبہ، تھرکول اور بلوچستان کے نئے مائننگ بلاکس عالمی سرمایہ کاری کے اہم مراکز بن سکتے ہیں۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک ایسا شفاف اور پائیدار فریم ورک تشکیل دے جس میں ملکی مفادات کے ساتھ بین الاقوامی اعتماد بھی برقرار رہے۔
معدنی ترقی صرف برآمدات یا سرمایہ کاری کا معاملہ نہیں بلکہ روزگار اور علاقائی خوشحالی کا ذریعہ بھی ہے۔
اس شعبے کی ترقی سے ہزاروں نئی ملازمتیں پیدا ہو سکتی ہیں۔ مقامی آبادیوں کے لیے روزگار، تعلیم اور بنیادی سہولیات کے مواقع بڑھیں گے۔
معدنی صنعت کی وسعت پاکستان کے صنعتی شعبے کو نئی رفتار دے سکتی ہے۔ اس سے اسٹیل، الیکٹرانکس، کیمیکل اور توانائی کی صنعتوں میں بھی مثبت تبدیلیاں آئیں گی۔
پاکستان کے معدنی وسائل خاص طور پر تھرکول، تانبہ اور لیتھیم ملک کو توانائی کے میدان میں خود کفیل بنا سکتے ہیں۔ توانائی کی خود کفالت صرف اقتصادی نہیں بلکہ قومی سلامتی کا معاملہ بھی ہے۔ جب پاکستان ایسے وسائل سے بجلی پیدا کرے گا تو اسے عالمی منڈیوں کے جھٹکوں سے بچاؤ حاصل ہوگا۔ پاکستان کا مستقبل ان زمینوں میں پوشیدہ ہے جنہیں ابھی تک مکمل طور پر دریافت نہیں کیا گیا۔ ریئر ارتھ منرلز اور دیگر معدنی وسائل پاکستان کو توانائی، ٹیکنالوجی اور اقتصادی ترقی کے میدان میں عالمی سطح پر نمایاں کر سکتے ہیں۔
اگر حکومت شفاف پالیسی، بین الاقوامی تعاون اور سائنسی بنیادوں پر منصوبہ بندی کو اپنائے تو پاکستان نہ صرف اپنی معیشت کو مضبوط کرے گا بلکہ خطے کے لیے توانائی اور ترقی کا محور بھی بن جائے گا۔
یہ وقت ہے کہ پاکستان اپنی ارضیاتی دولت کو قومی استحکام اور عالمی شراکت داری کے ذریعے ایک پائیدار مستقبل میں تبدیل کرے۔ کیونکہ ترقی کا راستہ زمین کے خزانوں سے ہو کر ہی گزرتا ہے۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
View all postsانیس الرحمٰن ایک مصنف اور تجزیہ کار ہیں جو اس وقت پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ اردو میں وہ بین الاقوامی تعلقات اور عالمی مسائل میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، اکثر ان موضوعات پر بصیرت انگیز تجزیے لکھتے ہیں۔ ای میل:
