بھارت کا مکروہ چہرہ ایک بار پھر دنیا کے سامنے بے نقاب ہوگیا۔ وہ ملک جو عالمی فورمز پر جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے دوسروں پر دہشت گردی کے الزامات لگاتا ہے، اب خود دہشت گردی کا سرپرست اور سہولت کار قرار پاگیا۔ کینیڈا کی حکومت کا حالیہ فیصلہ جس میں لارنس بشنوئی گینگ کو باقاعدہ طور پر دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا ہے، یہ محض کریمنل کارروائی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھارت کے بارے میں گردش کرتی دیرینہ شبہات اور خدشات کی توثیق بھی ہے۔ اس قدم نے وہ پردہ اٹھایا ہے جس کے پیچھے ایک بڑی حقیقت چھپی ہوئی تھی؛ ماضی میں ایسے نیٹ ورکس کو استعمال کیا جاتا رہا ہے جو دوسرے ممالک کے اندر عدم استحکام پیدا کرتے ہیں۔ یہ دستاویزی اور حقائق پر مبنی فیصلہ کینیڈا کی اندرونی سلامتی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحقیقات کی بنیاد پر سامنے آیا ہے۔
بشنوئی گروپ جس کی قیادت لارنس بشنوئی جیسی بدنام شخصیات کرتی آئی ہیں، طویل عرصے سے قتل، دھمکیاں، بھتہ خوری اور بین الاقوامی جرائم میں ملوث رہا ہے۔ کینیڈا نے واضح کیا ہے کہ اس فہرست بندی کا مقصد ایسے گروہوں کے اثاثے منجمد کرنا، ان کی مالی مدد روکنا اور ان کی یورپ یا شمالی امریکہ میں سرگرمیوں کا قلع قمع کرنا ہے، ایک ایسا اقدام جو بین الاقوامی جرائم اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کارگر ثابت ہوتا ہے۔
بشنوئی گروپ کے خلاف ایکشن خاص اہمیت کا حامل ہے۔ سب سے پہلے یہ فیصلہ اس طویل مدت کی تصدیق کرتا ہے جس کا اشارہ خطے کے مبصرین اور سیاستدان دہائیوں سے دے رہے تھے۔ بعض ریاستیں اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے پراکسی نیٹ ورکس کا سہارا لیتی ہیں۔ یہ پراکسیز کبھی محض سیاسی دباؤ یا اثر و رسوخ تک محدود نہیں رہتیں بلکہ خونی اور مجرمانہ کاروائیوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ جب عالمی برادری ان کو دہشت گرد قرار دیتی ہے تو اس کا مطلب صرف الزام نہیں بلکہ ٹھوس شواہد اور خطرے کی اہمیت کو تسلیم کرنا ہوتا ہے۔
کینیڈا کے فیصلے نے بھارت کے دوہرے معیار کی عکاسی واضح طور پر کی ہے۔ عالمی سطح پر امن پسندی اور قانون کی بالادستی کے علمبردار ہونے کے دعووں کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ پس پردہ حکمت عملی اکثر غیر شفاف، پرخطر اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف جاتی ہے۔ کینیڈا کی تحقیقات نے خصوصی طور پر اس بات کی نشاندہی کی کہ بشنوئی گروپ نے بیرون ملک خصوصاً کشمیری اور سکھ حامی تنظیموں یا شخصیات کو ہدف بنایا۔
یہ وہی رویہ ہے جسے پاکستان برسوں سے نشان تنقید بناتا آیا ہے بھارت خطے میں اپنے اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے مجرمانہ اور خفیہ ذرائع استعمال کرتا ہے۔ ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ عالمی سطح پر شفاف کارروائی اور بین الاقوامی تعاون کے ذریعے ایسے نیٹ ورکس کا خاتمہ ممکن ہے۔ کینیڈا کے اس اقدام سے سبق ملتا ہے کہ جب ایک آزاد اور شفاف ریاست ٹھوس شواہد کی بنیاد پر کسی گروہ کو دہشت گرد قرار دیتی ہے تو دیگر ممالک کو چاہیے کہ وہ اسی معیار کو اپنائیں، اپنے قوانین کے مطابق اقدامات کریں، اثاثے منجمد کریں، فنڈنگ روکیں اور بھرتی کے راستوں کو بند کریں۔ یہ عالمی یکجہتی نہ صرف قانون کی بالادستی کو فروغ دے گی بلکہ خطے میں استحکام کے لیے بھی ضروری ہے۔
بھارت کے خلاف طویل عرصے سے جو موقف اپنایا گیا وہ محض جذباتی یا سیاسی نہیں تھا۔ کئی دہائیوں سے پاکستان نے بارہا عالمی فورمز اور دوطرفہ سطح پر واضح کیا کہ بھارت بعض صورتوں میں خفیہ نیٹ ورکس اور پراکسیز کے ذریعے خطے میں دہشت گردی اور عدم استحکام کو پروان چڑھاتا ہے۔
یہ عالمی برادری سے مطالبہ کرنے کی بنیاد بھی فراہم کرتا ہے کہ بھارت کے اس رویے کو محض الفاظ تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ عملی، شفاف اور موثر اقدامات کیے جائیں۔
اس معاملے میں بیانات اور بیانیے کافی نہیں بلکہ عملی اقدامات، بین الاقوامی شراکت داری اور قانون کے دائرے میں رہ کر بھارت کے ایسے نیٹ ورکس کی سرپرستی کا حقیقی حساب لیا جائے۔ اس سے خطے میں امن کو تقویت ملے گی اور عالمی سطح پر قانون کی بالادستی اور ذمہ داری کا پیغام مضبوط ہوگا۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے خلاف عالمی برادری کے ساتھ مل کر اسے انجام تک پہنچائے۔ اس کی بدولت انڈیا کے ایسے پراکسی نیٹ ورکس کا جڑ سے خاتمہ ممکن ہو اور خطے میں امن قائم کیا جا سکے۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
اکرام احمد یونیورسٹی آف ساؤتھ ویلز سے بین الاقوامی تعلقات میں گریجویٹ ہیں۔ باتھ یونیورسٹی میں، جہاں ان کی تحقیق تنازعات کے حل، عالمی حکمرانی، بین الاقوامی سلامتی پر مرکوز ہے۔ ایک مضبوط تعلیمی پس منظر اور عالمی امور میں گہری دلچسپی کے ساتھ، اکرام نے مختلف تعلیمی فورمز اور پالیسی مباحثوں میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ ان کا کام بین الاقوامی تعلقات کی حرکیات اور عصری جغرافیائی سیاسی مسائل پر ان کے اثرات کو سمجھنے کے لیے گہری وابستگی کی عکاسی کرتا ہے۔
View all posts
