Nigah

لاہورمیں فضائی آلودگی کو کنٹرول کرنے کیلئے اینٹی اسموگ گن تیار

nigah لاہورمیں فضائی آلودگی کو کنٹرول کرنے کیلئے اینٹی اسموگ گن تیار

 

لاہور، باغوں اور ثقافت کا شہر، آج دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ سردیوں کے آغاز کے ساتھ ہی جب دھند اور دھوئیں کا ملاپ ہوتا ہے تو پورا شہر ایک سرمئی چادر میں لپٹ جاتا ہے۔ سڑکوں پر گاڑی چلانا مشکل ہو جاتا ہے، بچے اسکول جانے میں دشواری محسوس کرتے ہیں، اور سانس کی بیماریاں ہر گھر میں کسی نہ کسی کو متاثر کر دیتی ہیں۔ شہری اکثر سوال کرتے ہیں کہ آخر اس مسئلے کا حل کب نکلے گا؟ اسی سوال کا ایک ممکنہ جواب اب سامنے آیا ہے — لاہور میں پہلی بار اینٹی اسموگ گن تیار کی گئی ہے۔

اینٹی اسموگ گن  کیا اور کیسے؟
سادہ لفظوں میں یہ ایک بڑی مشین ہے جو پانی کو باریک بوندوں کی صورت میں ہوا میں چھوڑتی ہے۔ یہ بوندیں آلودگی کے ذرات کے ساتھ مل کر انہیں زمین پر گرا دیتی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ فضا وقتی طور پر کچھ صاف محسوس ہونے لگتی ہے، سانس لینا نسبتاً آسان ہو جاتا ہے اور آنکھوں کی جلن میں بھی کمی آتی ہے۔ اسے یوں سمجھ لیجیے جیسے بارش کے بعد موسم خوشگوار لگتا ہے، فرق یہ ہے کہ یہ مشین مصنوعی طریقے سے وہی اثر پیدا کرتی ہے۔

لاہور میں اس کا آغاز
ضلعی انتظامیہ نے بتایا ہے کہ ابتدائی طور پر 15 اینٹی اسموگ گنز لاہور لائی گئی ہیں۔ یہ بڑی بڑی مشینیں ہیں جو بارہ ہزار لیٹر تک پانی ذخیرہ کر سکتی ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ انہیں ان علاقوں میں استعمال کیا جائے گا جہاں دھواں اور گردوغبار زیادہ ہے، مثلاً صنعتی ایریاز، اسکولوں اور ہسپتالوں کے قریب۔ منصوبہ یہ ہے کہ اکتوبر سے ان کا باقاعدہ استعمال شروع ہو اور جب سموگ عروج پر ہو تو یہ دن رات چلتی رہیں۔

فوری ریلیف یا عارضی سہولت؟
لاہور کے شہریوں کے لیے یہ یقیناً خوشی کی خبر ہے۔ کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر اسکول کے باہر یا رہائشی علاقوں کے قریب یہ گن استعمال ہو تو بچوں اور بزرگوں کو بڑا ریلیف ملے گا۔ ایک ماں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "اگر اس سے میرے بچے کو سانس لینے میں آسانی ہوگی تو میرے لیے یہی کافی ہے۔”

لیکن ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ یہ مستقل حل نہیں۔ آلودگی کے اصل اسباب جیسے پرانی گاڑیاں، فیکٹریوں کا دھواں، کھیتوں میں باقیات جلانا اور تعمیراتی گردوغبار اگر اسی طرح جاری رہا تو اینٹی اسموگ گنز زیادہ دیر کام نہیں آئیں گی۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے بخار کے مریض کو وقتی طور پر پین کلر دے دی جائے، لیکن بیماری کی جڑ پر علاج نہ کیا جائے۔

ماہرین کی رائے اور عوامی سوچ
ماحولیاتی ماہرین اس اقدام کو سراہتے ہیں مگر اس پر زور دیتے ہیں کہ اصل ضرورت پالیسی سطح پر سخت اقدامات کی ہے۔ بہتر پبلک ٹرانسپورٹ، گاڑیوں کے اخراج پر کنٹرول، صنعتوں کے لیے جدید فلٹر سسٹم، اور کسانوں کو باقیات جلانے کے بجائے متبادل طریقے فراہم کرنا وہ اقدامات ہیں جو اس بحران کو جڑ سے حل کر سکتے ہیں۔

دوسری طرف، عوام کی رائے ملی جلی ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ "کم از کم حکومت نے کچھ تو کیا، یہ بھی بڑی بات ہے۔” جبکہ دوسرے شہریوں کا ماننا ہے کہ "یہ صرف وقتی نمائش ہے، اصل اقدامات کب ہوں گے؟”

نتیجہ
اینٹی اسموگ گن یقیناً لاہور کے لیے ایک مثبت قدم ہے۔ یہ شہریوں کو وقتی ریلیف دے سکتی ہے، سڑکوں پر دھند کم کر سکتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ پیغام دیتی ہے کہ مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ لیکن اگر ہم چاہتے ہیں کہ لاہور پھر سے سانس لینے کے قابل شہر بنے، تو اینٹی اسموگ گن کے ساتھ ساتھ پائیدار پالیسی اصلاحات، عوامی تعاون اور ماحولیاتی ذمہ داری بھی ضروری ہے۔

یہ صرف ایک شروعات ہے، اصل منزل وہ دن ہے جب لاہور کے بچے سکول جاتے وقت ماسک پہننے پر مجبور نہ ہوں اور لوگ شام کے وقت سکون سے باغوں میں ٹہل سکیں۔

اوپر تک سکرول کریں۔