Nigah

لداخ اور مقبوضہ کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورتحال

nigah لداخ اور مقبوضہ کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورتحال

بھارت کی جانب سے 2019 میں آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد نہ صرف غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر بلکہ لداخ میں بھی بے چینی اور بدامنی کی فضا پائی جاتی ہے۔ نئی دہلی کے یک طرفہ فیصلے نے جہاں کشمیری عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیا وہیں لداخ کے لوگوں کے دلوں میں بھی محرومی اور بے اعتمادی کو جنم دیا۔ حالیہ مہینوں میں لداخ میں شروع ہونے والی عوامی مزاحمت اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری بھارتی ریاستی جبر نے یہ ثابت کر دیا کہ عسکری قوت کے ذریعے عوامی خواہشات کو دبانا نہ صرف ناکام پالیسی ہے بلکہ پورے خطے کے امن کے لیے سنگین خطرہ بھی ہے۔

24 ستمبر 2025 کو لداخ کے علاقے لیہہ میں ہزاروں افراد نے اپنے آئینی تحفظات اور خود مختاری کی بحالی کے لیے پرامن احتجاج کیا۔ یہ مظاہرہ معروف ماحولیاتی کارکن سونم وانگ چک کی قیادت میں ہوا جو کئی ہفتوں سے بھوک ہڑتال اور عوامی مہم چلا رہے تھے۔ تاہم بھارتی پولیس نے اس پرامن احتجاج کو طاقت کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی اور مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ کی۔ اس واقعے میں چار افراد جان بحق اور 50 کے قریب زخمی ہوئے جن میں پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔

واقعہ کے بعد صورت حال مزید کشیدہ ہو گئی۔ مشتعل مظاہرین نے بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) کے دفاتر اور پولیس کی گاڑیوں کو آگ لگا دی۔ نئی دہلی حکومت نے سخت کریک ڈاؤن کرتے ہوئے 60 سے زائد افراد کو گرفتار کیا جن میں سونم وانگ چک بھی شامل ہیں۔ انہیں نیشنل سیکیورٹی ایکٹ (NSA) کے تحت حراست میں لیا گیا جو بغیر مقدمے کے طویل قید کی اجازت دیتا ہے۔

یہ اقدام نئی دہلی کے عوام دشمن اور جابرانہ رویے کو مزید نمایاں کرتا ہے جہاں سے ایسی آوازوں کو طاقت کے ذریعے دبایا جا رہا ہے۔

لداخ اور مقبوضہ کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورتحال

لداخ کی عوام خصوصاً نوجوان اس حقیقت سے سخت مایوس ہیں کہ 2019 میں وعدہ کیے گئے ترقیاتی منصوبے اور خصوصی حقوق آج تک فراہم نہیں کیے گئے۔ لداخ کی ثقافت، زبان اور ماحولیات شدید خطرات سے دوچار ہیں۔ جس پر نوجوانوں کی قیادت میں شروع ہونے والی تحریک اب مزاحمت کی شکل اختیار کر رہی ہے۔ احتجاج کے دوران بی جے پی کے دفاتر پر حملے اور پولیس کے خلاف مزاحمت اس بڑھتی ہوئی مایوسی اور ریاستی جبر کا نتیجہ ہے۔ یہ واضح پیغام ہے کہ نئی دہلی کی طاقت پر مبنی پالیسی اب عوامی غصے کو مزید بھڑکا رہی ہے۔

لداخ صرف ایک مقامِ تنازع نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کی جغرافیائی سیاست کا مرکز ہے۔ یہ علاقہ پاکستان اور چین کی سرحدوں سے جڑا ہوا ہے اور دفاعی اعتبار سے بھارت کے لیے بے حد اہم ہے۔ اسی لیے اس خطے میں پیدا ہونے والا ہر بحران نہ صرف بھارت بلکہ پورے خطے کے امن کو متاثر کرتا ہے۔ چینی میڈیا نے حالیہ واقعات کے بعد واضح طور پر کہا ہے کہ لداخ میں بدامنی بھارت کی اندرونی کمزوری کی علامت ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں بھارت اور چین کے درمیان سرحدی جھڑپیں پہلے ہی کئی بار ہو چکی ہیں۔ ایسے حالات میں عوامی بدامنی اور ریاستی تشدد نئی دہلی کے کنٹرول پر سوالیہ نشان کھڑے کر رہا ہے۔

لداخ میں جاری احتجاج کے ساتھ ساتھ غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھی بھارتی جبر اور تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ بھارتی پولیس نے تحریک حریت (TeH) کے دفاتر کو سیل کر دیا اور درجنوں رہنماؤں کو UAPA (غیر قانونی سرگرمیاں ایکٹ) کے تحت گرفتار کر لیا۔ اس قانون کے ذریعے بھارت اختلاف رائے رکھنے والوں کو ملک دشمن قرار دے کر نشانہ بناتا ہے۔

بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے دعویٰ کیا ہے کہ "کشمیر میں علیحدگی پسندی تاریخ بن چکی ہے” لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی سخت ترین فوجی محاصروں اور کریک ڈاؤن کے باوجود کشمیری عوام کے دلوں میں آزادی کی تڑپ موجود ہے۔ لداخ اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں بڑھتے ہوئے بھارتی جبر پر ہیومن رائٹس واچ سمیت کئی عالمی اداروں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بھارتی فورسز کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتوں اور احتیاطی گرفتاریوں کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔

تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ بھارت اگر سیاسی مکالمے کے بجائے عسکری جبر پر انحصار کرتا رہا تو یہ نہ صرف مقامی سطح پر بلکہ پورے خطے کے امن کے لیے نقصان دہ ہوگا۔

لداخ کی سرحدیں چین اور پاکستان سے ملتی ہیں، اس لیے وہاں پیدا ہونے والا بحران عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔

بھارت کی حکمت عملی یہ رہی ہے کہ عوامی مطالبات کو نظر انداز کر کے صرف طاقت اور فوجی قوت پر انحصار کیا جائے۔ لیکن زمینی حقائق اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ یہ حکمت عملی نہ صرف ناکام ہے بلکہ خطرناک بھی ہے۔ پرامن احتجاج کو کچلنے کے لیے طاقت کا استعمال عوامی مزاحمت کو مزید بھڑکا رہا ہے۔ سیاسی مذاکرات کی گنجائش ختم کرنا علیحدگی پسندی کے جذبات کو مزید تقویت دے رہا ہے۔ علاقائی توازن بگڑ رہا ہے جس سے بھارت کی داخلی اور خارجہ سلامتی خطرے میں ہے۔

لداخ اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری بدامنی کو صرف بھارت کا داخلی مسئلہ سمجھنا غلطی ہوگی۔ اس کے اثرات پورے خطے پر مرتب ہوں گے۔ لداخ میں کشیدگی چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازع کو مزید بھڑکا سکتی ہے جبکہ پاکستان پہلے ہی کشمیر کے مسئلے پر سرگرم ہے۔ جنوبی ایشیا پہلے ہی دنیا کے سب سے غیر مستحکم خطوں میں سے ایک ہے۔ اگر بھارت جبر پر انحصار کرتا رہا تو یہ بحران علاقائی امن کو متاثر کرے گا۔

انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور عوامی جبر کے باعث بھارت کی عالمی سطح پر شبیہ کمزور ہوگی۔ لداخ اور مقبوض جموں و کشمیر میں حالیہ بدامنی اور تشدد یہ حقیقت آشکار کر رہے ہیں کہ بھارت کی عسکری جبر پر مبنی پالیسی مکمل طور پر ناکام ہے۔ عوامی مطالبات کو دبانے اور سیاسی رہنماؤں کو گرفتار کرنے کے بجائے نئی دہلی کو چاہیے کہ وہ مذاکرات اور سیاسی عمل کے ذریعے مسائل کا حل نکالے۔ بصورت دیگر نہ صرف بھارت کے اندر علیحدگی اور بدامنی بڑھے گی بلکہ پورا خطہ ایک بڑے بحران کی طرف بڑھ سکتا ہے۔

اعلان دستبرداری
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • ڈاکٹر محمد سلیم

    محمد سلیم برطانیہ میں مقیم مصنف اور محقق ہیں جن کی اسٹریٹجک اسٹڈیز میں ایک مضبوط علمی بنیاد ہے۔ اس کا کام طاقت اور حکمت عملی کی پیچیدگیوں کو تلاش کرتا ہے۔ وہ جغرافیائی سیاست، علاقائی معاملات، اور آج کی دنیا کو تشکیل دینے والے نظریات کے لیے ایک باریک عینک لاتا ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔