28 ستمبر 2025 کو اتر پردیش کے شہر وارانسی میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے بھارت کے سیکولر دعووں، انسانی ضمیر اور کھیلوں کی تاریخ تینوں پر گہرا سوالیہ نشان لگا دیا۔ بھارتی حکام نے 1980 کے ماسکو اولمپک گولڈ میڈلسٹ، معروف مسلم ہاکی کھلاڑی محمد شاہد کے آبائی گھر کا ایک حصہ سڑک چوڑی کرنے کے بہانے سے بلڈوز کر دیا۔ یہ کارروائی صرف ایک مکان کے انہدام کی نہیں بلکہ ایک قوم کے اخلاقی انہدام کی علامت بن گئی۔ ایک ایسی قوم جو اپنے ہیروز کی قربانیوں کو فراموش کر کے مذہبی انتقام کے نشے میں مبتلا ہے۔
محمد شاہد بھارتی ہاکی کی تاریخ کا ایک درخشاں ستارہ تھے۔ 1980 کے اولمپک میں ان کی کارکردگی نے بھارت کو طلائی تمغہ دلایا اور وہ قومی فخر کی علامت بنے۔ مگر ان کی وفات کے نو سال بعد اسی ملک نے جس کے لیے انہوں نے میدانوں میں پسینہ بہایا، ان کے گھر کو مسمار کر کے ان کی یادوں پر مٹی ڈال دی۔ ان کے بھائی نے صرف چند دن کی مہلت مانگی تاکہ متبادل انتظام کیا جا سکے، مگر مقامی انتظامیہ نے یہ درخواست مسترد کر دی۔
یہ بے حسی صرف ایک خاندان کے ساتھ نہیں بلکہ بھارت کے اجتماعی ضمیر کے ساتھ ہوئی۔ ایک ایسا المیہ جس نے لاکھوں لوگوں کے دل زخمی کر دیے۔
بھارتی اپوزیشن رہنماؤں نے اس کارروائی کو "ریاستی انتقام” اور "انسانیت کی توہین” قرار دیا۔ اجے رائے، صدر اتر پردیش کانگریس نے کہا:
جبکہ چندر شیکھر آزاد، سربراہ آزاد سماج پارٹی نے کہا:
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بھارت عالمی سطح پر اپنے اولمپک ہیروز اور کھیلوں کی کامیابیوں کا جشن تو مناتا ہے، مگر ان ہیروز میں اگر کوئی مسلمان ہو تو اس کے لیے ملک میں عزت کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ محمد شاہد کا گھر صرف ایک مکان نہیں تھا، وہ بھارتی ہاکی کے سنہری دور کی علامت تھا۔ وہاں کی دیواریں اس دور کی یادیں سموئے ہوئے تھیں جب بھارت کھیلوں میں متحد اور فخر سے سرشار ہوتا تھا۔ مگر آج اسی گھر کا انہدام اس بات کی علامت ہے کہ ہندوتوا حکومت صرف ایک خاص مذہب، ایک خاص طبقے اور ایک خاص تاریخ کو زندہ رکھنا چاہتی ہے۔ یہ واقعہ واضح کرتا ہے کہ بی جے پی حکومت تاریخ کو سیاسی مفاد کے تحت دوبارہ لکھنے کی کوشش کر رہی ہے، جہاں مسلم ہیروز کی قربانیاں اور کامیابیاں مٹائی جا رہی ہیں تاکہ قوم کو "یک رنگ” اور "یک مذہب” دکھایا جا سکے۔
محمد شاہد کے گھر کی مسماری کوئی انفرادی واقعہ نہیں بلکہ ریاستی مسلم دشمنی کے منظم سلسلے کا حصہ ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں پریاگ راج، دہلی، ہلدوانی، مظفر نگر اور کئی دیگر شہروں میں سینکڑوں مسلم گھروں کو "غیر قانونی تعمیرات” کے نام پر گرا دیا گیا۔ یہ "بلڈوزر انصاف” دراصل فرقہ وارانہ انتقام کی پالیسی بن چکا ہے۔ مسلمان کارکن، صحافی، اساتذہ اور طلبہ تک اس ریاستی انتقام کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ان سب میں ایک قدرِ مشترک ہے: ان کی شناخت، ایمان، اور آواز۔
بی جے پی کی حکومت کے لیے "نیا بھارت” صرف اسی وقت ترقی یافتہ اور صاف دکھائی دیتا ہے جب اس کے نقشے سے مسلم وجود، ورثہ اور یادگاریں مٹا دی جائیں۔
بھارت میں کھیل کے میدانوں میں کامیابی کو قومی فخر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، مگر وہی حکومت جو بین الاقوامی سطح پر اپنے کھلاڑیوں کو سراہتی ہے، اپنے ہی مسلمان ہیروز کے نام مٹانے پر تلی ہوئی ہے۔ یہ حکومت میڈلز سے محبت تو کرتی ہے مگر میڈلسٹوں کی یادوں سے دشمنی رکھتی ہے۔ محمد شاہد کے گھر کی مسماری نے ثابت کر دیا کہ مودی سرکار کی قوم پرستی دراصل مذہبی بالادستی کا دوسرا نام ہے، جہاں ملک سے محبت کا پیمانہ مذہب کے مطابق طے کیا جاتا ہے۔
کیا ایک ایسا ملک جو اپنے قومی ہیروز کے گھروں پر بلڈوزر چلاتا ہے، دنیا کے سامنے خود کو جمہوریت، انسانیت اور رواداری کا علمبردار کہہ سکتا ہے؟ یہ سوال آج بھارت کے ہر شہری کے ضمیر پر دستک دے رہا ہے۔
مودی حکومت کی جانب سے "بلڈوزر ترقی” کے نام پر چلائی جانے والی مہم دراصل سیاسی انتقام اور مذہبی انتہاپسندی کی علامت بن چکی ہے۔ اتر پردیش اور مدھیہ پردیش میں بی جے پی حکومتیں مسلم محلوں، گھروں اور کاروباروں کو نشانہ بنا کر یہ تاثر دے رہی ہیں کہ "قانون سب کے لیے برابر نہیں”۔ یہی پالیسی آج محمد شاہد جیسے ہیروز کے گھروں تک جا پہنچی ہے۔ ایک ایسا شخص جس نے ملک کو سونے کا تمغہ دیا، اس کے خاندان کو انصاف کے بجائے ذلت، تذلیل اور ظلم کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ واقعات صرف مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ بھارت کی جمہوریت اور آئین کے خلاف ہیں۔
جب ریاست اپنے ہی شہریوں کو مذہب کی بنیاد پر کمتر سمجھے تو پھر وہ ملک ترقی نہیں بلکہ تباہی کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے۔
اس واقعے کے بعد اگرچہ کچھ سیاسی جماعتوں اور سماجی کارکنوں نے آواز اٹھائی، مگر اکثریت نے خاموشی اختیار کر لی۔ یہی خاموشی سب سے خطرناک ہے، کیونکہ جب معاشرہ ظلم کے خلاف بولنا چھوڑ دے تو ظلم عام ہو جاتا ہے۔ بھارت کے تعلیمی ادارے، کھیلوں کی تنظیمیں اور شہری برادری اگر محمد شاہد جیسے قومی ہیرو کے ساتھ ہونے والے ظلم پر بھی نہیں بولے تو آنے والی نسلوں کے لیے "قوم پرستی” صرف ایک کھوکھلا نعرہ رہ جائے گی۔ یہ خاموشی دراصل ڈری ہوئی اکثریت اور غلام ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے، جہاں انصاف اور انسانیت، مذہب کے تابع کر دی گئی ہے۔
محمد شاہد کے گھر کی مسماری محض اینٹوں کا ڈھیر نہیں بلکہ بھارت کے ضمیر پر ایک زخم ہے۔ یہ اس نظریے کے زوال کی نشانی ہے جو کبھی "سیکولر ازم” اور "جمہوریت” کے نام سے جانا جاتا تھا۔ بھارت کے مسلمان ہی نہیں بلکہ ہر وہ شخص جو انصاف، برابری اور انسانیت پر یقین رکھتا ہے، آج خود سے یہ سوال پوچھ رہا ہے کہ کیا یہ وہی ملک ہے جس نے "ایک بھارت، عظیم بھارت” کا خواب دیکھا تھا؟
اگر ایک اولمپک گولڈ میڈلسٹ کے گھر پر بلڈوزر چل سکتا ہے تو عام مسلمان کہاں محفوظ ہے؟ یہ صرف ایک خاندان کا نہیں بلکہ پورے بھارت کے ضمیر کا امتحان ہے۔
اور بدقسمتی سے بھارتی قوم یہ امتحان ہار چکی ہے۔
محمد شاہد کا نام آج بھی بھارتی ہاکی کے لیے عزت، کامیابی اور اتحاد کی علامت ہے۔ ان کے گھر پر چلنے والا بلڈوزر دراصل بھارت کے سیکولر خواب پر چلنے والا بلڈوزر ہے۔ ایک قوم جو اپنے ہیروز کو بھلا دیتی ہے، وہ نہ اپنی تاریخ محفوظ رکھ سکتی ہے، نہ اپنا مستقبل۔
وقت آ گیا ہے کہ بھارت کے عوام اس منافقانہ سیاست کے خلاف کھڑے ہوں تاکہ کوئی اور ہیرو، کوئی اور یادگار اور کوئی اور خاندان اس "بلڈوزر سیاست” کا شکار نہ بنے۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
انیس الرحمٰن ایک مصنف اور تجزیہ کار ہیں جو اس وقت پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ اردو میں وہ بین الاقوامی تعلقات اور عالمی مسائل میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، اکثر ان موضوعات پر بصیرت انگیز تجزیے لکھتے ہیں۔ ای میل: