مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی حکومت کی جانب سے انسانی وقار اور پیشہ ورانہ استحقاق کی جو پامالی کی جا رہی ہے، اس کی ایک تازہ مثال میڈیکل انٹرنیز کے ساتھ روا رکھا جانے والا غیر انسانی سلوک ہے۔ یہ وہ نوجوان ڈاکٹر ہیں جو رات دن ہسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈز، آئی سی یو اور آپریشن تھیٹرز میں اپنی نیند، آرام اور زندگی کو قربان کر کے مریضوں کو زندگی کی امید دیتے ہیں، مگر ان کی خدمات کے عوض بھارتی حکومت انہیں صرف یومیہ 410 روپے دیتی ہے جو کسی ہسپتال کی کینٹین میں ایک کھانے کی قیمت سے بھی کم ہے۔ یہ رقم نہ صرف توہین آمیز ہے بلکہ بھارتی حکومت کے اس استحصالی اور غیر اخلاقی رویے کی نشاندہی کرتی ہے جو اس نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کے ہر طبقے کے ساتھ روا رکھا ہے۔
نئی دہلی کے ایوانوں میں بیٹھے پالیسی ساز شاید یہ سمجھتے ہیں کہ کشمیر کے مسیحا بھی غلاموں کی طرح خاموش رہیں گے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ناانصافی نے ایک بار پھر بھارت کے انسانی حقوق کے چیمپین ہونے کے دعوے کو جھوٹا ثابت کر دیا ہے۔ ایمرجنسی وارڈز میں خون، پسینے اور قربانی کی قیمت 410 روپے لگانا ناانصافی نہیں بلکہ دانستہ تذلیل ہے۔ یہ وہ نوجوان ہیں جو 24 گھنٹے کی ڈیوٹی کے بعد بھی ایک مسکراہٹ کے ساتھ مریض کو امید دیتے ہیں مگر ان کے اپنے گھروں میں غربت اور مایوسی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ یہ محض کم تنخواہ نہیں بلکہ ایک منصوبہ بند نفسیاتی حربہ ہے تاکہ مقبوضہ کشمیر کے نوجوان ڈاکٹر یہ محسوس کریں کہ ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ ان کا پیشہ، ان کی قربانی اور ان کی عزت سب کچھ بھارت کے لیے غیر اہم ہے۔
بھارتی حکومت جان بوجھ کر کشمیری نوجوانوں کو احساس کمتری، مایوسی اور غیر یقینی میں مبتلا رکھنا چاہتی ہے تاکہ وہ اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے باوجود محکومی کے احساس سے نہ نکل سکیں۔
رپورٹس کے مطابق کشمیر کے انٹرنیز کی تنخواہوں میں اضافہ کرنے کی فائل 11 ماہ سے بیوروکریٹک رسہ کشی میں الجھی رہی اور بالاخر فائنانس ڈیپارٹمنٹ نے اسے بغیر کسی کاروائی کے واپس کر دیا۔ یہ واقعہ بھارت کی نام نہاد گڈ گورننس کی حقیقت عیاں کرتا ہے۔ ایک طرف مودی حکومت پروپیگنڈا اور میڈیا کنٹرول پر کروڑوں روپے خرچ کرتی ہے، دوسری طرف انسانی جانیں بچانے والوں کو چند سو روپے کے عوض استحصال کا نشانہ بناتی ہے۔ یہ محض انتظامی نااہلی نہیں بلکہ دانستہ تذلیل ہے۔ ایک ایسا رویہ جو مقبوضہ کشمیر میں ہر شعبے کے پیشہ ور افراد کے ساتھ اپنایا جا رہا ہے۔ چاہے وہ اساتذہ ہوں، انجینیئرز یا ڈاکٹرز، سب کو ایک ہی پیغام دیا جا رہا ہے کہ تمہاری قربانیوں کی کوئی قیمت نہیں۔
بھارتی حکومت نے ظلم کے ساتھ ساتھ ہمدردی کے استحصال میں بھی مہارت حاصل کر لی ہے۔ وہ انہی نوجوان ڈاکٹروں کی قربانی کو اپنی بے حسی کے جواز کے طور پر پیش کرتی ہے۔ جب کوئی انٹرن احتجاج کرتا ہے تو حکومت کہتی ہے ہمیں معلوم ہے کہ تم خدمت کے جذبے سے آتے ہو اس لیے مالی مطالبات غیر ضروری ہیں۔ یہ رویہ دراصل انسانی ہمدردی کے مقدس جذبے کو سرکاری مصلحتوں کی بھینٹ چڑھانے کے مترادف ہے۔
جب ایک حکومت پروپیگنڈے پر بے تحاشہ سرمایہ لگا سکتی ہے مگر اپنی مسیحاؤں کو بھوکا رکھتی ہے تو اس کے اخلاقی اور انسانی ترجیحات واضح ہو جاتی ہیں۔ کشمیر کے میڈیکل انٹرنیز محض ایک پیشہ ور طبقہ نہیں بلکہ اس مقبوضہ خطے کے مستقبل کے محافظ ہیں۔ ان پر ظلم کا مطلب کشمیر کے عوام کے صحت کے حق پر براہ راست حملہ ہے۔ حکومت نے انہیں غیر تسلیم شدہ مزدوروں میں بدل دیا ہے جو بلا اعتراف اور بلا معاوضہ اپنی زندگی ہسپتالوں میں جھونک رہے ہیں۔ یہ صورتحال صرف ایک صوبائی مسئلہ نہیں بلکہ بھارتی ریاست کے اس طرز حکمرانی کی عکاس ہے جس میں طاقت کو انصاف پر فوقیت حاصل ہے۔ کشمیر میں ہر چیز زمین، تعلیم اور اب صحت نئی دہلی کی کنٹرول پالیسی کا شکار ہے۔
بھارت دنیا بھر میں خود کو جمہوریت اور انسانی حقوق کا چیمپین قرار دیتا ہے مگر حقیقت میں وہ اپنے زیر قبضہ علاقے کے نوجوان ڈاکٹروں کے بنیادی حقوق تک تسلیم نہیں کرتا۔ بین الاقوامی برادری کو یہ سوال ضرور اٹھانا چاہیے کہ وہ ملک جو عالمی فورمز پر ہیلتھ فار آل کا نعرہ لگاتا ہے، اپنے مقبوضہ علاقے کے مسیحوں کو کیوں ذلیل کر رہا ہے؟
یہی جملہ مزید ادبی اور پر اثر انداز میں یوں پیش کیا گیا ہے
جب کسی حکومت کے لیے ہسپتال کی کینٹین میں چائے پیش کرنے والے کو زیادہ اجرت دینا ترجیح ہو، اور جان بچانے والے کو بھوکا رکھنا معمول، تو مسئلہ معیشت کا نہیں بلکہ احساسِ ہمدردی کے فقدان کا ہوتا ہے۔
مودی حکومت نے گزشتہ چند برسوں میں کشمیر پر اپنا بیانیہ مضبوط کرنے کے لیے میڈیا مہمات، سوشل میڈیا ایجنسیوں اور جعلی ترقیاتی منصوبوں پر اربوں روپے خرچ کیے۔ مگر جب بات حقیقی خدمت اور انسانی فلاح کی آتی ہے تو یہی حکومت فنڈز کی کمی کا بہانہ بنا لیتی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ نئی دہلی کے نزدیک کشمیری عوام کا وجود صرف ایک سیاسی تماشہ ہے۔ جب صحت جیسے حساس شعبے کے نوجوانوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے، تو صاف ظاہر ہے کہ بھارتی حکومت کے لیے انسانی زندگی محض ایک شماریاتی عدد بن کر رہ گئی ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی پالیسیوں کا مقصد صرف زمین پر قبضہ نہیں بلکہ کشمیری عوام کے شعور، عزت اور حوصلے کو توڑنا ہے۔ انٹرنی ڈاکٹرز کی تذلیل اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ چنانچہ اس معاملے کو بین الاقوامی انسانی حقوق کے فورمز پر اٹھانا چاہیے تاکہ دنیا کو مودی حکومت کی منافقت کا اصل چہرہ دکھایا جا سکے۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
ڈاکٹر سید حمزہ حسیب شاہ ایک تنقیدی مصنف اور تجزیہ کار ہیں جو بین الاقوامی تعلقات میں مہارت رکھتے ہیں، خاص طور پر ایشیا اور جغرافیائی سیاست پر توجہ دیتے ہیں۔ انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اردو میں اور علمی اور پالیسی مباحثوں میں فعال طور پر حصہ ڈالتا ہے۔View all posts