اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے حالیہ اجلاس میں بھارت کے نمائندے نے ایک بار پھر اپنی روایتی جھوٹ، گمراہ کن بیانات اور تاریخ سے انحراف پر مبنی موقف کو دہراتے ہوئے دعوی کیا کہ جموں و کشمیر کا تنازعہ اقوام متحدہ کے فورم کے لیے غیر متعلق ہو چکا ہے۔ اس پر پاکستان نے نہایت مضبوط اور مدلل رد عمل دیتے ہوئے واضح کیا کہ بھارت کا یہ موقف تاریخی حقائق سے متصادم اور اقوام متحدہ کے چارٹر، سلامتی کونسل کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کی روح کے سراسر خلاف ہے۔ پاکستانی مندوب نے زور دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر ایک بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ تنازہ ہے جو آج بھی اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ یہ اعلان دراصل اس اصولی حقیقت کی توثیق ہے کہ مسئلہ کشمیر کوئی داخلی مسئلہ نہیں بلکہ ایک عالمی تنازعہ ہے جسے بھارت خود 1948 میں اقوام متحدہ میں لے کر گیا تھا۔ آج جب وہ اپنے ہی وعدوں سے مکر رہا ہے تو یہ اس کی سفارتی اور اخلاقی کمزوری کی علامت ہے۔
بھارتی نمائندے نے دعوی کیا کہ بھارت کشمیر کے مسئلہ پر کسی بین الاقوامی فورم پر بات کرنے کا پابند نہیں۔ یہ دعوی اس حقیقت کو مسخ کرنے کی کوشش ہے جس کی بنیاد پر سلامتی کونسل نے 1948 سے 1957 تک متعدد قراردادیں منظور کیں۔ ان میں اقوام متحدہ کی قرارداد 47 (1949)، قرارداد نمبر 91 (1951) اور قرارداد 122 (1957) خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں جن میں واضح طور پر تسلیم کیا گیا کہ ریاست جموں و کشمیر کے عوام کو رائے شماری کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ بھارت نے ابتدا میں اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انڈو پاکستان کے قیام پر رضامندی ظاہر کی تھی تاکہ کشمیر میں رائے شماری کے انتظامات کیے جا سکیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ بھارت نے اپنی فوجی موجودگی مضبوط کر کے ان وعدوں سے انحراف کیا اور مقبوضہ وادی میں ظلم اور جبر کے ایک ایسے سلسلے کا آغاز کیا جو آج بھی جاری ہے۔
پاکستان نے اقوام متحدہ کے فورم پر ایک بار پھر دو ٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ
کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے کیونکہ یہی جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کی بنیاد ہے۔
پاکستانی مندوب نے دنیا کو یاد دلایا کہ یہ بھارت ہی تھا جس نے 1948 میں مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں اٹھایا تھا مگر آج وہ خود ان قراردادوں کو ماننے سے انکاری ہے اور اپنے موقف کی نفی کر رہا ہے جو اقوام متحدہ کے چارٹر کی بھی سنگین خلاف ورزی ہے۔ پاکستان نے اس بات پر زور دیا کہ عالمی برادری بھارت کو اس کے وعدوں کی یاد دہانی کرائے اور اسے سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کرانے پر مجبور کرے تاکہ کشمیری عوام اپنی قسمت کا فیصلہ خود کر سکیں۔
پاکستان نے عالمی برادری کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کرائی کہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ کشمیری عوام گزشتہ سات دہائیوں سے ظلم، جبر، تشدد، ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں اور اظہار رائے پر پابندیوں کا شکار ہیں۔ پاکستان نے خاص طور پر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کی 2018 اور 2019 کی رپورٹس کا حوالہ دیا جن میں بھارت کے طاقت کے بے جا استعمال، من مانے حراستی اقدامات، ماورائے عدالت قتل اور بنیادی آزادیوں پر قدغنوں کی تفصیل دی گئی تھی۔ ان رپورٹس نے دنیا کے سامنے وہ سچ بے نقاب کیا جسے بھارت برسوں سے چھپاتا آرہا تھا۔
پاکستان نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارت کو ان سنگین جرائم پر جوابدہ ٹھہرائے، اور کشمیری عوام کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کرے۔ پاکستان نے یاد دلایا کہ بھارت نے پانچ اگست 2019 کو آرٹیکل 370 اور 35 اے کی خصوصی حیثیت ختم کر کے بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی کی۔ ان غیر قانونی اقدامات کا مقصد وادی کے مسلم اکثریتی تشخص کو ختم کر کے آبادی کا تناسب تبدیل کرنا تھا تاکہ مستقبل میں رائے شماری کے نتائج کو متاثر کیا جا سکے۔ یہ اقدامات چوتھے جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 49 کے تحت جنگی جرم کے زمرے میں آتے ہیں کیونکہ کسی قابض قوت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ زیر قبضہ علاقے کی آبادی میں نسلی یا مذہبی بنیادوں پر تبدیلی لائے۔ پاکستان نے عالمی برادری کو خبردار کیا کہ اگر بھارت کی ان غیر قانونی کارروائیاں روکنے کے لیے عملی اقدامات نہ کیے گئے تو خطہ ایک بڑے انسانی المیے کی طرف جا سکتا ہے۔
پاکستان نے واضح کیا کہ وہ نہ صرف کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کے لیے ہر بین الاقوامی فورم پر آواز بلند کرتا رہے گا بلکہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی قوانین کی روشنی میں اس مسئلے کے پرامن حل کے لیے پُرعزم ہے۔ پاکستانی مندوب نے کہا کہ ہم بھارت کے ساتھ کشمیر پر دو طرفہ بات چیت کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ وہ اقوام متحدہ کے اصولوں اور قراردادوں کی پاسداری کرے۔ یہ موقف اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان امن چاہتا ہے مگر انصاف کے بغیر امن ممکن نہیں۔ پاکستان نے دنیا کو باور کرایا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کا خواب ادھورا ہے۔ بھارت کی ہٹ دھرمی نے خطے میں کشیدگی بڑھا دی ہے اور عالمی امن و سلامتی کے لیے بھی خطرہ بن چکی ہے۔
پاکستان نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں اپیل کی کہ عالمی برادری بھارت پر دباؤ ڈالے تاکہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو روکے، کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرے، ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں اور قیدیوں پر تشدد کا سلسلہ بند کرے، بین الاقوامی مبصرین کو وادی تک رسائی دے تاکہ زمینی حقائق دنیا کے سامنے آسکیں۔ پاکستان نے اس پر بھی زور دیا کہ اقوام متحدہ کو اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کراتے ہوئے انڈو پاک کمیشن کے کردار کو بحال کرنا چاہیے تاکہ کشمیر کی عوام کو وہ حق دیا جا سکے جو انہیں 1949 سے وعدے کے باوجود نہیں ملا۔
پاکستان کا موقف کسی تعصب یا سیاسی مفاد پر مبنی نہیں بلکہ انصاف، قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی بنیاد پر قائم ہے۔ بھارت کے جھوٹے بیانیے، غیر قانونی اقدامات اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے باوجود پاکستان نے ہمیشہ ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیا۔ مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل نہ صرف کشمیری عوام کے لیے انصاف کا تقاضا ہے بلکہ یہ جنوبی ایشیا کے امن و استحکام کی کنجی بھی ہے۔ عالمی برادری کو اب مزید خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ وقت آ گیا ہے کہ بھارت کو اس کے کیے کا جوابدہ ٹھہرایا جائے اور کشمیری عوام کو وہ حق دیا جائے جس سے انہیں سات دہائیوں سے محروم رکھا گیا ہے، یعنی حق خود ارادیت۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
ڈاکٹر سید حمزہ حسیب شاہ ایک تنقیدی مصنف اور تجزیہ کار ہیں جو بین الاقوامی تعلقات میں مہارت رکھتے ہیں، خاص طور پر ایشیا اور جغرافیائی سیاست پر توجہ دیتے ہیں۔ انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اردو میں اور علمی اور پالیسی مباحثوں میں فعال طور پر حصہ ڈالتا ہے۔View all posts

