Nigah

مقبوضہ کشمیر میں ترقی کے لیے جعلی مقابلے ایک تلخ حقیقت

مقبوضہ جموں و کشمیر میں ظلم و جبر کی داستان کوئی نئی نہیں، مگر اب وہ چہرے بے نقاب ہونے لگے ہیں جو برسوں سے قانون کی عملداری کے نام پر انسانی زندگیوں سے کھیلتے رہے۔ یونائٹڈ پیپلز پارٹی کے سربراہ اور معروف کشمیری سماجی رہنما ڈاکٹر سندیپ ماوا نے انکشاف کیا ہے کہ بھارتی پولیس اور سکیورٹی فورسز نے ترقی، انعامات اور سرکاری اعزاز حاصل کرنے کے لیے سینکڑوں جعلی مقابلے (Fake Encounters) کیے، جن میں بے گناہ کشمیریوں کو قتل کیا گیا۔

ڈاکٹر ماوا کے مطابق "کشمیر میں ترقی کرنے کا آسان ترین راستہ جعلی انکاؤنٹرز بن گیا ہے۔ جو افسر زیادہ لاشیں گراتا ہے وہی تیزی سے ترقی پاتا ہے”۔

یہ الفاظ کسی عام سیاسی دعوے نہیں بلکہ اس سچائی کا اعتراف ہیں جو برسوں سے کشمیری عوام محسوس کر رہے تھے مگر ثابت نہیں کر سکتے تھے۔ ڈاکٹر ماوا نے بتایا کہ "میں ان افسران کو جانتا ہوں جو صرف جعلی مقابلوں کی بنیاد پر اعلیٰ رینک تک پہنچے۔ ایک اے ایس آئی نے تو 300 جعلی انکاؤنٹرز کے ذریعے ترقی کرتے کرتے ڈی آئی جی کا عہدہ حاصل کر لیا”۔

یہ بیان محض ایک الزام نہیں، بلکہ بھارتی نظام انصاف کی تباہی کی علامت ہے جہاں انسانی جانوں کی قیمت عہدے اور تمغے بن چکے ہیں۔

کشمیر میں جعلی مقابلے جنہیں انکاؤنٹر کا نام دے کر پیش کیا جاتا ہے، دراصل ریاستی دہشت گردی کی ایک شکل ہیں۔ ان کارروائیوں میں بیشتر نوجوانوں کو پہلے لاپتہ کیا جاتا ہے، پھر انہیں دہشت گرد قرار دے کر مقابلے میں مارنے کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ بعد میں نہ کوئی عدالتی تحقیقات ہوتی ہیں اور نہ کسی اہلکار کو سزا ملتی ہے۔

بھارتی پولیس اور سکیورٹی ادارے برسوں سے کشمیر میں اپنی کامیابیوں کا ڈھول پیٹتے آئے ہیں۔ ہر چند ہفتوں بعد خبر آتی ہے کہ "دو دہشت گرد ہلاک، تین گرفتار” لیکن حقیقت اب سامنے آ رہی ہے کہ ان میں اکثر کارروائیاں من گھڑت اور منصوبہ بندی شدہ تھیں۔

ڈاکٹر سندیپ ماوا نے کھل کر کہا کہ "پولیس اور فوج ترقی اور انعامات کی خاطر بے گناہ کشمیریوں کو قتل کرتی ہے۔ جعلی مقابلوں سے ترقی پانے والے آج اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے ہیں”۔ یہ بیان اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کسی اتفاقی عمل کا نتیجہ نہیں بلکہ ریاستی سرپرستی میں منظم پالیسی ہے۔

ڈاکٹر ماوا نے انکشاف کیا کہ جو کشمیری اس ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں ان پر پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA) لگا دیا جاتا ہے۔ یہ قانون بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حکومت کو کسی بھی شخص کو بغیر مقدمے کے دو سال تک قید کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ ان کے مطابق "کشمیری مسلمانوں کی زبان بند کر دی گئی ہے۔ جو بولتا ہے یا تو مار دیا جاتا ہے یا جیل میں ڈال دیا جاتا ہے”۔

انسانی حقوق کی پامالی
Source: WE NEWS

یہ طرزِ عمل بھارت کے جمہوری دعووں کے برعکس ہے۔ ایک ایسا ملک جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے، وہاں بولنے کی آزادی ایک سنگین جرم بن چکی ہے۔

ڈاکٹر سندیپ ماوا نے ایک نہایت سنگین الزام لگایا کہ "گورنر مقبوضہ کشمیر اس سازش میں برابر کے شریک ہیں”۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر میں سکیورٹی اداروں کی کارروائیاں محض حفاظتی اقدامات نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے سیاسی و عسکری ایجنڈے کا حصہ ہیں۔ ان کے مطابق جب انہوں نے خود کشمیری مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھائی تو ان کی سکیورٹی واپس لے لی گئی، حالانکہ ان پر چھ قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں۔

یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ بھارت میں وہی شخص محفوظ ہے جو سرکاری بیانیہ کی تائید کرے، جو سچ بولے گا وہ دشمن ٹھہرایا جائے گا۔

کشمیر میں برسوں سے بھارتی حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر کارروائیاں کرتی آئی ہے، مگر حقیقت میں یہ کارروائیاں کشمیریوں کے بنیادی حقوق کو کچلنے کا ذریعہ بن چکی ہیں۔ ڈاکٹر ماوا کے انکشافات کے بعد یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ ان جعلی انکاؤنٹرز کے پیچھے ایک گہری ریاستی سازش کارفرما ہے۔

ایسے درجنوں واقعات ریکارڈ پر موجود ہیں جہاں بعد ازاں تحقیق سے معلوم ہوا کہ جنہیں دہشت گرد قرار دے کر مارا گیا وہ عام مزدور یا طالب علم تھے، لیکن ان کے اہل خانہ کو نہ انصاف ملا نہ ان کی بات سنی گئی۔

ڈاکٹر سندیپ ماوا خود ایک کشمیری پنڈت

ڈاکٹر سندیپ ماوا کے بیانات کے بعد انسانی حقوق کی تنظیموں نے ایک بار پھر مطالبہ کیا ہے کہ کشمیر میں ہونے والے تمام متنازعہ مقابلوں کی عدالتی تحقیقات کرائی جائیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ جیسے ادارے پہلے بھی خبردار کر چکے ہیں کہ بھارت کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ جب تک ان واقعات کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات نہیں ہوتیں، انصاف ممکن نہیں۔

ڈاکٹر ماوا نے بھی زور دیا کہ "جن افسران نے جعلی کارروائیوں میں حصہ لیا، انہیں قانون کے مطابق سخت سزا دی جانی چاہیے”۔

ڈاکٹر سندیپ ماوا خود ایک کشمیری پنڈت ہیں، جو مذہب اور نسل کے اختلاف سے بالاتر ہو کر انسانیت کی آواز بنے ہیں۔ انہوں نے اپنی نئی سیاسی جماعت یونائٹڈ پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے کشمیری عوام کے حقوق کی جنگ شروع کی۔ ان کا موقف ہے کہ "کشمیر میں ظلم صرف مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ پورے معاشرے کے خلاف ہے۔ جب انصاف کسی کے لیے نہیں ہوتا تو وہ سب کے لیے خطرہ بن جاتا ہے”۔

ڈاکٹر ماوا پر قاتلانہ حملے، دھمکیاں اور سکیورٹی کی واپسی اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت میں سچ بولنا زندگی کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔

کشمیر میں جعلی مقابلوں، ماورائے عدالت قتل اور انسانی حقوق کی پامالی کے باوجود عالمی برادری کی خاموشی افسوسناک ہے۔ اقوامِ متحدہ کی متعدد رپورٹس کے باوجود بھارت کو اب تک کسی عالمی فورم پر جوابدہ نہیں ٹھہرایا گیا۔

اب وقت آ گیا ہے کہ بین الاقوامی طاقتیں محض بیانات کے بجائے عملی اقدامات کریں۔ ڈاکٹر ماوا کے انکشافات کو صرف کشمیری مسئلہ نہیں بلکہ انسانی وقار کا عالمی مسئلہ سمجھا جانا چاہیے۔

کشمیر کی وادی آج بھی ظلم، جبر اور ناانصافی کی زد میں ہے۔ ڈاکٹر سندیپ ماوا جیسے رہنما اس تاریکی میں امید کی کرن ہیں، جو نہ صرف سچ بولنے کی ہمت رکھتے ہیں بلکہ خطرات کے باوجود ظلم کے خلاف ڈٹے ہیں۔ جعلی مقابلوں کے ذریعے ترقی پانے والے افسران کے چہرے بے نقاب کرنا کشمیر میں انصاف کی بحالی کی سمت پہلا قدم ہے۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری، انسانی حقوق کے ادارے اور بھارت کے اندر وہ تمام لوگ جو انسانیت پر یقین رکھتے ہیں آواز اٹھائیں، کیونکہ خاموشی ظلم کی سب سے بڑی مددگار ہوتی ہے۔

اعلان دستبرداری
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • ڈاکٹر محمد سلیم

    محمد سلیم برطانیہ میں مقیم مصنف اور محقق ہیں جن کی اسٹریٹجک اسٹڈیز میں ایک مضبوط علمی بنیاد ہے۔ اس کا کام طاقت اور حکمت عملی کی پیچیدگیوں کو تلاش کرتا ہے۔ وہ جغرافیائی سیاست، علاقائی معاملات، اور آج کی دنیا کو تشکیل دینے والے نظریات کے لیے ایک باریک عینک لاتا ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔