Nigah

مودی حکومت اور دیوالیہ قانون، اصلاح یا تباہی؟

Modi gold

نریندر مودی کی حکومت جو خود کو اقتصادی اصلاحات کا علمبردار قرار دیتی ہے، اب اپنے ہی بنائے ہوئے نظام کے بوجھ تلے دب چکی ہے۔ 2016 میں بھارت نے انسولوینسی اینڈ بینکرپسی کوڈ (IBC) نافذ کیا تھا جسے ملک کی مالی صحت بحال کرنے اور قرضوں کے تیز رفتار حل کے لیے ایک تاریخی قدم قرار دیا گیا۔

تاہم آٹھ سال بعد یہ قانون ناکامی کی علامت بن چکا ہے۔ دی اکانومسٹ کی حالیہ رپورٹ نے واضح طور پر لکھا ہے کہ مودی حکومت کا یہ منصوبہ ناکام ترین اقتصادی پالیسی ثابت ہوا۔ 8 ہزار کمپنیوں میں سے صرف 60 فیصد کے کیس حل ہو سکے جبکہ 78 فیصد قانونی مدت سے تجاوز کر گئے۔ قرضوں کی وصولی کی شرح صرف 32 فیصد رہی، یعنی ہر 100 روپے میں صرف 32 روپے واپس ملے۔

IBC کو اس مقصد کے لیے متعارف کرایا گیا تھا کہ بینکوں اور قرض دہندگان کو ایسی کمپنیاں تیزی سے بند یا بیچنے میں مدد ملے جو قرض واپس نہیں کر سکتیں۔ نظام یہ تھا کہ عدالتیں 270 دن کے اندر فیصلہ سنائیں گی تاکہ کمپنیوں کے اثاثے بروقت فروخت ہو سکیں اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو۔

لیکن عملی طور پر ہوا اس کے برعکس۔ عدالتی تاخیر، بیوروکریٹک سستی اور کرپشن نے اس نظام کو تباہ کر دیا۔ اعداد و شمار کے مطابق ہزاروں کیسز برسوں سے عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔ قانون کہتا ہے کہ دیوالیہ درخواست 270 دن میں نمٹنی چاہیے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیشتر کیس دو سال یا اس سے زیادہ عرصے سے زیر سماعت ہیں۔ عدالتوں میں نہ صرف مقدمات کا انبار ہے بلکہ صنعتی یا مالی ماہرین کی بھی کمی ہے۔ ریٹائرڈ بیوروکریٹس کو جج یا ایڈمنسٹریٹر تعینات کر دیا گیا ہے جو جدید مالی پیچیدگیوں کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

یہی وجہ ہے کہ انصاف کی رفتار سست، فیصلے متضاد اور نظام بدعنوانی سے آلودہ ہو چکا ہے۔ JSW سٹیل کے ایک بڑے ٹیک اوور کیس میں سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا، وہ مئی 2025 میں خود عدالت کو واپس لینا پڑا کیونکہ فیصلہ قانونی خامیوں اور غیر تکنیکی منطق پر مبنی تھا۔

دیوالیہ کارروائی کا پورا نظام اتنا پیچیدہ اور غیر مؤثر ہے کہ سرمایہ کار اس سے دور بھاگنے لگے ہیں۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق 1900 جاری کیسز میں سے 78 فیصد ایسے ہیں جو قانونی مدت سے تجاوز کر چکے ہیں، جبکہ گزشتہ سال یہ شرح 68 فیصد تھی۔ یعنی حالات مسلسل خراب ہو رہے ہیں۔

رضاکارانہ لیکوڈیشن کا عمل بھی تقریباً 4.3 سال تک چلتا ہے جس میں سے تقریباً تین سال سرکاری منظوریوں کے انتظار میں ضائع ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کمپنیاں اور سرمایہ کار اپنی سرمایہ کاری واپس لینے کے بجائے بھارت سے انخلاء کو ترجیح دینے لگے ہیں۔

بھارتی عدلیہ میں صنعت ماہرین کے بجائے سابق افسران کو تعینات کرنا مودی حکومت کی سب سے بڑی غلطی ثابت ہوئی۔ ایسے افسران جنہوں نے زندگی میں کبھی کسی مالی بحران یا کارپوریٹ ڈھانچے پر کام نہیں کیا، اب فیصلے کر رہے ہیں کہ اربوں روپے کے قرضوں کا کیا کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ فیصلے غیر منطقی تاخیر کا شکار اور اکثر کرپشن کے الزامات سے دوچار ہوتے ہیں۔

دی اکانومسٹ کے مطابق عدالت میں نہ صرف تکنیکی مہارت کی کمی ہے بلکہ انصاف کے تقاضوں کی سمجھ بھی ناپید ہے۔ یہی وہ کمزوری ہے جس نے بھارت کے دیوالیہ قانون کو Dead on Arrival بنا دیا، یعنی ایک ایسا نظام جو پیدا ہوتے ہی مر گیا۔

بھارت میں کاروباری طبقہ اب اس نظام کو “Economic Trap” یعنی معاشی جال کہتا ہے۔ کوئی کمپنی جب دیوالیہ کارروائی میں داخل ہوتی ہے تو وہ برسوں کے لیے غیر یقینی صورتحال میں پھنس جاتی ہے۔ نہ کاروبار جاری رکھ سکتی ہے، نہ بند ہو سکتی ہے، اور نہ نئے سرمایہ کار آسکتے ہیں۔

بہت سی کمپنیوں نے کہا کہ عدالتی تاخیر اور سرکاری مداخلت نے ان کے اثاثے تباہ کر دیے۔ بینک قرض واپس نہیں لے پاتے، خریدار پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور حکومت تماشائی بنی رہتی ہے۔ یوں ایک پورا صنعتی شعبہ قانونی پیچیدگیوں کے سبب اقتصادی مفلوجی کا شکار ہو چکا ہے۔

بھارت نے جب 2016 میں یہ قانون بنایا تو عالمی مالیاتی اداروں نے اسے سراہا تھا، لیکن 2025 تک یہ نظام عالمی سرمایہ کاروں کے لیے خوف کی علامت بن گیا۔ سرمایہ کاروں کے لیے یہ جاننا مشکل ہو گیا کہ اگر کسی کمپنی میں سرمایہ لگائیں اور وہ ناکام ہو جائے تو ان کا پیسہ واپس کیسے ملے گا۔ یہی وجہ ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری میں نمایاں کمی آئی ہے۔

ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں Ease of Doing Business” انڈیکس میں دیوالیہ پن کے سیکشن میں بھارت کی درجہ بندی مسلسل گر رہی ہے۔ مودی حکومت کے دعوے کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ بھارتی مارکیٹ اب اعتماد کے بحران کا شکار ہو چکی ہے۔

دی اکانومسٹ نے اپنے تازہ ترین اداریے میں انکشاف کیا کہ "بھارت کے دیوالیہ قوانین اصلاحات کا ذریعہ نہیں رہے، بلکہ خود ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکے ہیں”۔

ادارے کے مطابق مودی حکومت نے ایک ایسا ڈھانچہ بنایا جو عدالتی تاخیر، بیوروکریٹک بدانتظامی، قانونی ابہام اور سیاسی اثر و رسوخ سے بھرا ہوا ہے۔ یہ نظام نہ صرف ناکام کمپنیوں کو بچانے میں ناکام رہا بلکہ اس نے نئی کمپنیوں کو بھی خوفزدہ کر دیا ہے۔

مودی حکومت نے اگست 2025 میں بالاخر کچھ اصلاحات کا اعلان کیا جن میں ڈیفالٹ کے فوری فیصلے، کلین سلیٹ رول (یعنی نئی شروعات کی اجازت) اور عدالت سے باہر تصفیے کا نظام شامل ہیں۔ یہ اقدامات اگر 2018 یا 2019 میں کیے جاتے تو شاید نظام بچ سکتا تھا۔ لیکن جب ہزاروں کمپنیاں بند ہو چکیں، سرمایہ کار بھاگ چکے، اور عدلیہ پر اعتماد ختم ہو گیا تو اب یہ اصلاحات صرف ایک سیاسی دکھاوا محسوس ہوتی ہیں۔

بھارت کی معیشت کو آج جس چیلنج کا سامنا ہے اس کی جڑیں عدالتی تاخیر، بیوروکریٹک بدانتظامی اور غلط پالیسیوں میں ہیں۔ مودی حکومت کا 2016 کا دیوالیہ قانون جسے "معاشی انقلاب” کہا گیا تھا، آج خود اقتصادی تباہی کا باعث بن چکا ہے۔

یہ صرف ایک قانون کی ناکامی نہیں بلکہ مودی حکومت کی پالیسیوں کی مکمل شکست ہے۔ دی اکانومسٹ کی تنقید اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت کی ترقی کا تاثر دراصل ایک مصنوعی بیانیہ تھا۔ حقیقت میں مودی کی حکومت کے نئے بھارت کا خواب عدالتی تاخیر، کرپشن، اور اقتصادی جمود کے اندھیرے میں گم ہو چکا ہے۔

اعلان دستبرداری
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • Azeem gul nigah pk

    ڈاکٹر عظیم گل نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز، اسلام آباد کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات میں فیکلٹی ہیں۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔