ٹرمپ انتظامیہ نے ملک بدری مہم کے دوران ICE کے اعلیٰ افسران کو نئے عہدوں پر تعینات کر دیا — امیگریشن پالیسی میں بڑی تبدیلی
واشنگٹن: ٹرمپ انتظامیہ نے امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (ICE) کے اعلیٰ سطحی عہدیداروں کی وسیع پیمانے پر ازسرِنو تعیناتی کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ اقدام ملک بھر میں امیگریشن قوانین کے سخت نفاذ اور ڈیپورٹیشنز (ملک بدریوں) میں اضافے کے لیے ایک جامع حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ متعدد ذرائع کے مطابق، یہ تبدیلیاں ادارے کے اندر اب تک کی سب سے بڑی انتظامی ردوبدل میں سے ایک ہوں گی۔
دو امریکی حکام نے سی بی ایس نیوز (CBS News) کو بتایا کہ کم از کم ایک درجن ICE فیلڈ آفسز کے سربراہان کو ان کے عہدوں سے ہٹایا جا سکتا ہے، جبکہ ان کی جگہ کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن (CBP) سے تعلق رکھنے والے موجودہ یا سابق اہلکاروں کو تعینات کیے جانے کا امکان ہے۔ یہ ردوبدل 25 فیلڈ آفسز میں سے تقریباً نصف کو متاثر کرے گی۔
حکام کا کہنا ہے کہ یہ تبادلے برطرفیاں یا تنزلیاں نہیں بلکہ ادارے کی کارکردگی بہتر بنانے اور انتظامی ترجیحات کو ٹرمپ حکومت کی امیگریشن پالیسی کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کا ایک داخلی اقدام ہیں۔ ایک عہدیدار نے بتایا:
"یہ اقدام مخصوص آفسز کو مزید معاونت فراہم کرنے اور انہیں انتظامیہ کے امیگریشن اہداف کے مطابق مضبوط کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔”
یہ فیصلے وائٹ ہاؤس کی اس بڑھتی ہوئی بے چینی کو ظاہر کرتے ہیں جو ICE کی گرفتاریوں اور ڈیپورٹیشنز کی کم شرح سے متعلق ہے — جو حکومت کے مقرر کردہ روزانہ اہداف تک نہیں پہنچ سکی۔
🛂 بارڈر پیٹرول کا بڑھتا ہوا کردار اور سیاسی ردِعمل
گزشتہ چند مہینوں کے دوران، ٹرمپ انتظامیہ نے بارڈر پیٹرول ایجنٹس کو ڈیموکریٹک ریاستوں کے شہروں — جیسے لاس اینجلس اور شکاگو میں ICE آپریشنز میں مدد کے لیے تعینات کیا۔ یہ اہلکار، جو عموماً سبز وردی میں نظر آتے ہیں، نے کار واشز، ہوم ڈیپو پارکنگ لاٹس اور دیگر عوامی مقامات پر چھاپے مار کر غیر قانونی تارکین وطن کو گرفتار کرنے کی کوشش کی۔
تاہم ان کارروائیوں نے مقامی حکام اور عوام کی جانب سے شدید تنقید کو جنم دیا، جنہوں نے حکومت پر غیر ضروری سختی اور ایسے افراد کو نشانہ بنانے کا الزام لگایا جن کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں تھا۔ ایک ICE اہلکار نے سی بی ایس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا:
"ہم مجرموں کو گرفتار کرنے پر توجہ دے رہے ہیں، مگر وہ لوگ ہوم ڈیپو اور کار واشز میں عام مزدوروں کو پکڑنے جا رہے ہیں۔”
یہ بیان ICE اور بارڈر پیٹرول کے درمیان اندرونی اختلافات کی نشاندہی کرتا ہے۔
🏛️ وائٹ ہاؤس کا ردِعمل
محکمہِ ہوم لینڈ سیکیورٹی (DHS) نے اس انتظامی ردوبدل کو عوامی طور پر کم اہمیت دی ہے۔ ترجمان ٹریشیا میک لافلن نے کہا:
"فی الحال کسی عملے کی تبدیلی کا باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا، تاہم ٹرمپ انتظامیہ نتائج حاصل کرنے اور خطرناک مجرم غیر قانونی تارکین وطن کو ملک سے نکالنے کے لیے پوری توجہ سے کام کر رہی ہے۔”
وائٹ ہاؤس کی ترجمان ایبیگیل جیکسن نے مزید کہا:
"صدر کی ٹیم ایک متحدہ لائحہ عمل پر کام کر رہی ہے۔ سرحدوں کی حفاظت سے لے کر مجرم تارکین وطن کی ملک بدری تک، نتائج خود اپنی کہانی بیان کر رہے ہیں۔”
📊 گرفتاریوں کے اہداف اور ICE کی کارکردگی
صدر ٹرمپ کے سینئر مشیر اسٹیفن ملر — جو امیگریشن پالیسی کے مرکزی معمار سمجھے جاتے ہیں — نے ICE کو روزانہ کم از کم 3,000 گرفتاریوں کا ہدف دیا تھا۔ تاہم ادارہ اس ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ سی بی ایس نیوز کو موصول اعداد و شمار کے مطابق، ICE نے اوسطاً 900 گرفتاریاں روزانہ کیں، جس کے نتیجے میں دوسری ٹرمپ انتظامیہ کے دوران مجموعی طور پر 2,60,000 گرفتاریاں ہوئیں۔
اگرچہ ICE نے اپنی ترجیحات مجرمانہ پس منظر رکھنے والے افراد کی گرفتاری پر مرکوز رکھی ہیں، مگر انتظامیہ نے اپنی پالیسی کو وسعت دیتے ہوئے ہر غیر قانونی مقیم شخص کی گرفتاری کی اجازت دے دی ہے۔
👥 ICE میں قیادت کی تبدیلیاں
یہ تازہ اقدام ICE میں ہونے والی متعدد قیادتی تبدیلیوں کا تسلسل ہے۔ سال کے آغاز میں کالیب ویٹیلو (Caleb Vitello) — جو ٹرمپ کے دوسرے دور کے پہلے ICE سربراہ تھے — کو ٹرانسفر کر کے ان کی جگہ سینئر افسر ٹوڈ لیونز (Todd Lyons) کو عبوری ڈائریکٹر تعینات کیا گیا۔ اسی طرح، انفورسمنٹ اینڈ ریموول آپریشنز (ERO) اور ہوم لینڈ سیکیورٹی انویسٹی گیشنز (HSI) کے سربراہان کو بھی تبدیل کر دیا گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق، یہ تیز تر تبدیلیاں ٹرمپ انتظامیہ کے اس عزم کو ظاہر کرتی ہیں کہ وہ امیگریشن پالیسی پر مکمل کنٹرول مضبوط کرے اور ملک بدری کی شرح میں نمایاں اضافہ کرے — جو کہ صدر ٹرمپ کے دوسرے دورِ حکومت کے بنیادی اہداف میں سے ایک ہے۔
🔑 5 اہم نکات:
🔹 ٹرمپ انتظامیہ نے ICE میں وسیع پیمانے پر قیادتی تبدیلیاں شروع کر دی ہیں۔
🔹 ایک درجن سے زائد فیلڈ آفس سربراہان کو نئے عہدوں پر تعینات کیا جا سکتا ہے۔
🔹 بارڈر پیٹرول کے اہلکاروں کو شہری علاقوں میں چھاپوں کے لیے متحرک کیا گیا۔
🔹 کارروائیوں پر سیاسی اور عوامی ردِعمل سامنے آیا، خاص طور پر ڈیموکریٹک شہروں میں۔
🔹 یہ تبدیلیاں امیگریشن پالیسی کو سخت کرنے اور ڈیپورٹیشنز بڑھانے کی بڑی مہم کا حصہ ہیں۔