Nigah

ٹرمپ کے 20 نکاتی غزہ امن منصوبے پر اسرائیل متفق؛ حماس کا ردعمل بھی آگیا

nigah ٹرمپ کے 20 نکاتی غزہ امن منصوبے پر اسرائیل متفق؛ حماس کا
[post-views]

 

غزہ کی تباہ حال گلیوں میں جہاں دھواں اور ملبہ عام ہے، وہاں ایک نئی خبر نے لوگوں کے دلوں میں ہلکی سی ہلچل مچائی ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 نکات پر مشتمل ایک امن منصوبہ پیش کیا ہے، جسے اسرائیل نے مشروط طور پر قبول کر لیا ہے۔ مگر دوسری طرف حماس نے محتاط رویہ اپناتے ہوئے کہا ہے کہ یہ منصوبہ فلسطینی عوام کے لیے یکطرفہ ہے اور اسے اسی حالت میں ماننا ممکن نہیں۔

منصوبے کی جھلک
اس منصوبے میں سب سے نمایاں شق فوری جنگ بندی ہے تاکہ مسلسل بمباری اور ہلاکتوں کا سلسلہ روکا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ اغوا شدگان کی رہائی، حماس کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا اور ایک عارضی عبوری حکومت قائم کرنا شامل ہے، جو بین الاقوامی نگرانی میں کام کرے گی۔ منصوبے کے مطابق اسرائیل کچھ علاقوں سے مرحلہ وار واپسی کرے گا اور دنیا غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے سرمایہ فراہم کرے گی۔

اسرائیل کا اندازِ نظر
اسرائیل نے منصوبے پر رضا مندی ظاہر کی ہے، مگر شرط رکھی ہے کہ اگر تمام مغوی 72 گھنٹوں کے اندر رہا نہ ہوئے تو وہ پیچھے ہٹ سکتا ہے۔ مزید یہ کہ اسرائیل غزہ کو فی الحال براہِ راست فلسطینی حکمرانی کے حوالے کرنے پر تیار نہیں، بلکہ پہلے اسے ’’غیر عسکری زون‘‘ بنایا جائے گا۔

حماس کی سوچ
حماس کا مؤقف مختلف ہے۔ ان کے نزدیک یہ منصوبہ زیادہ تر اسرائیل کے مفادات کو تحفظ دیتا ہے اور فلسطینی عوام کی قربانیوں کو نظر انداز کرتا ہے۔ ہتھیار ڈالنے کی شرط اور اسرائیل کی جزوی واپسی جیسے نکات حماس کے لیے ناقابلِ قبول دکھائی دیتے ہیں۔ البتہ تنظیم نے یہ عندیہ دیا ہے کہ اگر منصوبے میں کچھ تبدیلیاں لائی جائیں تو بات چیت ممکن ہے۔

چیلنجز کی دیوار
اگرچہ منصوبہ امن کی ایک جھلک دکھاتا ہے، مگر حقیقت میں اس پر عمل درآمد اتنا آسان نہیں۔ سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ فلسطینی ریاست کا ذکر نہ ہونا بھی ایک بڑا خلا ہے جو عوام کے اندر بے چینی بڑھا رہا ہے۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی نگرانی اور عبوری حکومت کا قیام بھی نئے تنازعات کو جنم دے سکتا ہے۔

عام انسان کی امید
غزہ کے ایک عام شہری کے لیے یہ منصوبہ سیاست سے زیادہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ ان کے لیے امن کا مطلب ہے کہ بچے سکول جا سکیں، اسپتالوں تک دوا پہنچے، اور وہ رات کو سکون سے سو سکیں۔ وہ اس جنگ بندی کو ایک خواب سمجھتے ہیں، مگر ڈرتے بھی ہیں کہ یہ خواب کہیں پھر ادھورا نہ رہ جائے۔

نتیجہ
ٹرمپ کا امن منصوبہ شاید کاغذ پر خوبصورت لگتا ہے، مگر اس کی اصل قدر تب ہی ہوگی جب اسرائیل اور حماس دونوں کچھ لچک دکھائیں۔ فی الحال یہ ایک موقع ہے، مگر وقت ہی بتائے گا کہ یہ منصوبہ واقعی امن کی طرف قدم ہے یا صرف سیاسی بیانات کی ایک اور قسط

اوپر تک سکرول کریں۔